کراچی آپریشن کی چابیاں

حصہ دوم

پہلا حصہ پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

جنرل رضوان اختر کے بیرکس کے ساتھ، عیدگاہ کے مقابل پولیس ہیڈکوارٹرز میں بھی نئے سربراہ کے نیچے تبدیلیوں کا عمل جاری تھا۔ لیکن شاہد حیات مختلف نوعیت کے سپاہی تھے۔ انسپکٹر جنرلز، ان کے باسز آتے اور چلے جاتے (تین سال میں سندھ کے پانچ آئی جی تبدیل ہوئے) لیکن جب تک وہ ایڈیشنل آئی جی رہے کراچی پولیس میں تبدیلی محسوس کی گئی۔ شاہد حیات کو اچھی زندگی، اچھے کھانے میں دلچسپی تھی لیکن وہ رات گئے تک تنازعات کے حل کے لئے دفتر میں جرگہ لگائے رکھتے۔ ابتدائی طور پر وہ رینجرز کو انٹیلی جنس فراہم کرتے اور جنرل رضوان اختر پولیس کو فورس دیتے۔

آخرکار اس تعلق نے انہیں اتنا طاقتور کر دیا کہ وہ مخبری کے ساتھ خود بھی آپریشن کرنے لگے، گھر واپسی سے ہے وہ اکثر آئی آئی چندریگر روڈ پر مغربی راستے کا انتخاب کرتے، محافظوں کے بغیر گاڑی کے شیشے نیچے کئے جب وہ لیاری سے گزرتے تو شاہد حیات زندہ باد کے نعرے ان کا استقبال کرتے۔ ان کا ماننا تھا کہ انہوں نے کراچی کے مشکل ترین علاقے میں ان لوگوں کو ریسکیو کیا ہے اور ان کا یہ اندازہ غلط بھی نہیں تھا۔ لیکن ان سب کے باوجود شاہد حیات سیاسی سکینڈلز کی زد میں تھے، وہ 1996ء میں مرتضیٰ بھٹو قتل کیس میں جیل میں رہے لیکن پھر انہوں نے اپنی آزادی اور نوکری کے ساتھ کراچی بھی واپس حاصل کیا۔ شاہد حیات کا کیریئر اسی شہر میں گزرا، جنرل رضوان اختر یہ جانتے تھے، وہ جانتے تھے کہ انہیں شاہد حیات اور 27 ہزار پولیس اہلکاروں کی ضرورت ہے۔ اس طرح سے انہوں نے اپنے نتائج علیحدہ علیحدہ حاصل کئے لیکن ایک دوسرے کے ساتھ مل کر۔

حقیقت میں، 2014ء میں سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد جب پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی اتحادی حکومت نے ان کو عہدے سے ہٹایا ’وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ اس فیصلے پر نظرثانی کرسکتا تھا لیکن اس نے نہیں کی‘ شاہد حیات اور رضوان اختر سول ملٹری اتحاد کا شاندار مظاہرہ کرچکے تھے، اور لیاری چوک میں گھنٹوں کے مقابلے کے بعد وہ بغیر پروٹوکول گشت بھی کرچکے تھے۔ جب وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ نے ایک بدنام افسر کو ملیر کا ایس ایس پی تعینات کیا تو شاہد حیات کے اعتراضات پر رضوان اختر نے میڈیا میں پیش کیا تھا۔

لیکن وہ اپنی کامیابیوں اور اتحاد کے باوجود سیاسی رہنماؤں کو یہ باور نہ کرا سکے کہ کراچی کے نواح میں موجود طالبان کو نشانہ بنانا کافی نہیں۔ ’’اگر کراچی کو ٹھیک کرنا ہے تو سیاسی پشت پناہی رکھنے والے عسکری گروہوں اور مافیاز، تعمیراتی شعبے کے ریتی بجری گینگز، قبضہ گروپوں، غیرقانونی واٹرہائیڈرنٹس، بھتہ وصول کرنے والے گروہوں حتیٰ کہ پولیس کے اپنے بیٹرز کو بھی نشانہ بنانا ہوگا‘‘۔ اور اس عمل میں ترقیاتی کاموں کی بھی اشد ضرورت ہے۔

2014ء میں اپنے انٹرویو میں اس وقت کے ڈی جی رینجرز میجر جنرل رضوان اختر نے بتایا تھا کہ جب آپریشن شروع ہوا تو یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ اس کو سیاسی، انتظامی اور ترقیاتی مدد بھی دی جائے گی تاکہ رینجرز اور پولیس کے حاصل کئے گئے اہداف کو دیرپا بنایا جاسکے، یہ منصوبہ ’گنز اینڈ بٹر‘ کے ساتھ آگے بڑھنا تھا۔

نائن زیرو اور بلاول ہاؤس میں سیاسی اسٹیبلشمنٹ بیورو کریسی کے ساتھ جاکھڑی ہوئی اور شاہد حیات اور رضوان اختر کو میڈیا کے ہنگاموں اور عدالتی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا جس سے آپریشن بے نتیجہ ہونے لگا۔

2014ء تک جب شاہد حیات اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے اور رضوان اختر اپنے تیسرے سٹار کے حصول اور آبپارہ میں آئی ایس آئی ڈائریکٹوریٹ میں نئی اہم ترین ذمہ داریوں کی تیاری کر رہے تھے، کراچی ناصرف اپنے بہترین پولیس افسر چودھری اسلم سے محروم ہوچکا تھا بلکہ ٹارگٹڈ آپریشن کے فوائد سے بھی محروم ہو رہا تھا، وہ آپریشن جس کو وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار حتیٰ کہ وزیراعظم نوازشریف نے خود شروع کیا تھا۔

ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے جنرل رضوان اختر نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ آپریشن تین سے چار ماہ تک بہترین طریقے سے چلتا رہا، لیکن اس کے بعد سیاستدانوں کی عدم دلچسپی اور مجرموں کی پشت پناہی نہ چھوڑنے اور بیڈگورننس کی وجہ سے اس کے فوائد کم ہوتے چلے گئے۔
2014ء کے آخر میں پیپلزپارٹی ایم کیو ایم اتحاد نے پولیس کو اپنے لوگوں سے بھر دیا اور آپریشن کے مقاصد کو بے دردی کے ساتھ پارلیمنٹ اور میڈیا سے ہٹا دیا۔

کراچی کے سول ملٹری اقتدار کے ایوانوں میں نئے کور کمانڈر اور ڈی جی رینجرز آچکے تھے جنہیں نائن زیرو اور بلاول ہاؤس میں ابھی وہ رسائی حاصل نہیں تھی۔ گلی کوچوں میں رینجرز اپنے سب سے بڑے اتحادی ’کراچی پولیس‘ سے محروم ہوچکی تھی۔ کراچی سے آگے بڑھنے والے جانتے تھے کہ ابھی بہت سا کام باقی ہے۔

لیکن بہت سے دن گزر چکے تھے اور سانحہ پشاور ہوگیا۔ سروسز اور انٹیلی جنس سربراہ بدل چکے تھے، کراچی کی سیکیورٹی مساوات دوبارہ بدل گئی تھیں۔ تاہم دو کروڑ انسانوں کا شہر، پاکستان کا سب سے بڑا شہری علاقہ دیکھ رہا تھا کہ جنرلز اور سیاستدان ایک مرتبہ پھر میز پر بیٹھ چکے ہیں اور نئے آپریشن کلین اپ پر غور ہو رہا ہے کہ کوئی ’’نسلی امتیاز‘‘ کا نعرہ بلند نہ کرسکے۔ یہ نومین ٹاؤن ہے اور اسے کوئی شخص ٹھیک نہیں کرسکتا۔

لیکن اس وقت حالات بہت بدل چکے تھے، اس وقت کراچی سے بہت دور واقعے شہر میں ایک بھیانک حملے میں 150 طلبا اور اساتذہ شہید ہوچکے تھے جس کے بعد نیشنل ایکشن پلان بن چکا تھا جو اگرچہ متنازعہ تھا لیکن اس پر کام ہوسکتا تھا۔ نیشنل ایکشن پلان نے پاکستانیوں کو بہت سے حیران کن واقعات سے گزارا، پھندے سے لٹکتے دہشت گردوں کی منہ سے نکلتی زبانوں کے مناظر، اخبارات کے صفحہ اول پر پھانسی گھاٹ کی تصاویر، برق رفتار فیصلوں کے لئے بریگیڈیئرز جج بنے، عجیب نام والی اپیکس کمیٹیاں جہاں کور کمانڈرز اور وزرائے اعلیٰ میز پر ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ کر جرائم سے نمٹنے کی حکمت عملی بناتے، لاؤڈ اسپیکر کا غلط استعمال کرنے والے ملاؤں کے خلاف پولیس مقدمات کا انداراج کرنے لگی، فیس بک ایکٹوسٹس نے لال مسجد کا گھیراؤ کیا، راولپنڈی اور رائے ونڈ سے ہر ہفتے اس عزم کا اظہار کے ہر رنگ اور نسل کے دہشت گردوں کا خاتمہ کیا جائے گا۔ حتیٰ کہ سول سیکیورٹی اداروں کے سربراہ چودھری نثار علی خان بھی آخرکار پریس ریلیز جاری کرنے لگے، تاریک وزارت دناخلہ میں روشنیاں ہوئیں اور کابینہ کے سب سے تلخ وزیر واشنگٹن میں سفارتی مشن مکمل کرکے پاکستان واپس پہنچے۔

ان واقعات کے بعد انسداد دہشت گردی کی ریاست کے زندہ آلود اور منجمد پہیے دوبارہ چلتے ہوئے محسوس ہونے لگے۔ شکارپور، پشاور، لاہور اور اسلام آباد میں ’گندہ خون‘ نکالا جانے لگا، لشکرجھنگوی کے عثمان سیف اللہ کرد کو کوئٹہ کے سریاب روڈ پر کھانا کھاتے ہوئے قتل کر دیا گیا، اہلسنت والجماعت کے عہدیدار کو راولپنڈی میں پراسرار طور پر پھانسی دے دی گئی، ان سب میں بچنے والے کراچی میں تھے۔ سرحد کے اس پار نیٹو اور افغان فورسز نے آخر کار ’برے طالبان‘ کو نشانہ بنانا شروع کردیا اور عمر خالد خراسانی حملے میں شدید زخمی ہوگئے۔ اور جب متحدہ امارات لیاری کے عزیر بلوچ کو ملک بدر کرنے کی تیاریاں کر رہی تھیں تو افغان نیشنل سیکیورٹی فورسز نے سانحہ پشاور کے منصوبہ سازوں کو پکڑنے میں مدد دی۔ حتیٰ کہ بھارت کے ساتھ میں اس سلسلے میں سیاسی رابطے قائم کئے گئے اور انسداد دہشت گردی کے لئے تاریخی علاقائی اتحاد بن گیا۔

نیشنل ایکشن پلان کے بیس نکات میں سے دو بنیادی طور پر کراچی کے لئے تھے۔ تیسرے نقطے میں یہ عزم کہ ملک میں کسی بھی مسلح ملیشیا کو کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، کراچی میں سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ پر توجہ دلاتا تھا جن کا ذکر ٹارگٹڈ آپریشن میں بار بار ہوتا تھا۔ اور نقطہ نمبر 16 جو تمام معاملے پر مہر لگاتا تھا، ’کراچی میں جاری آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔

یہ کاغذوں پر تھا، میگاسٹی کے بارے میں نیشنل اکیشن پلان کو کس طرح عمل میں لایا جائے؟ جب کہ شہر کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ایم کیو ایم اس کی زد میں آتی ہو۔

کراچی پولیس کے سینئر آفیسرز کے مطابق ہر دس میں سے سات سے آٹھ مقدمات کے سرے ایم کیو ایم سے ملتے ہیں۔

’’اگر پہلے تمام راستے روم کی طرف جاتے تھے تو اب ان کا رخ عزیز آباد کی جانب ہے‘‘ ملٹری ذرائع کے مطابق وزیراعظم نوازشریف، آرمی چیف جنرل راحیل شریف، کور کمانڈر کراچی اور سندھ رینجرز کے نئے ڈائریکٹر جنرل نے کراچی کے معاملے میں کئی ملاقاتیں کی، شریف اور شریف کا سول ملٹری اتحاد اس بارے میں ایک پیج پر آنے لگا اور کراچی کی سیاسی قیادت کو ایک قسم کا شوکاز نوٹس دے دیا گیا۔

کراچی آپریشن میں شریک فوجی افسر اور اہلکاروں کی رائے لی جائے تو ان کا کہنا تھا کہ ’’کالعدم تحریک طالبان پاکستان ملک کے لئے ایک عذاب ہے اور شاید پوری مسلم امہ کے لئے لیکن اگر کراچی کی بات کی جائے تو ایم کیو ایم اس سے بھی بڑا خطرہ ہے‘‘۔

ایم کیو ایم کے خلاف سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے طاقتور کھلاڑیوں کی مضبوط ہوتی رائے کی وجہ سے ہی شاید سانحہ بلدیہ کی جے آئی ٹی رپورٹ اچانک منظرعام پر آگئی۔ شاید اسی لئے کراچی میں سی پی ایل سی کو معطل کر دیا گیا جو کہ پیراملٹری ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم کے ’پے رول‘ پر تھی۔ شاید اسی لئے وفاق نے ایم کیو ایم کے لوگوں کے نام ای سی ایل سے نہیں نکالے اور عمران خان نے بھی توپوں کا رخ ایم کیو ایم کی طرف کئے رکھا۔ شاید اسی لئے آئی ایس پی آر بھی کراچی کے معاملات میں متحرک رہا۔

ہواؤں کے بدلتے رخ دیکھ کر الطاف حسین سیکیورٹی اور انٹیلی جنس اہلکاروں کے خلاف تنقید سے باز آئے اور ایم کیو ایم نے ہر موقع پر وفاقی حکومت کا ساتھ دینا شروع کر دیا۔

ایم کیو ایم کے سنجیدہ لوگ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ پارٹی میں کمانڈ اینڈ کنٹرول کے مسائل کی بنیادی وجہ الطاف حسین کا پاکستان کے بجائے لندن میں ہونا ہے۔ وہ مسلح گروہوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کو بھی تسلیم کرتے ہیں لیکن ان کا اصرار ہے کہ ایم کیو ایم اس معاملے میں تنہا نہیں۔

ایم کیو ایم کے ایک سینئر رہنما جنہوں نے سیاست کا آغاز زمانہ طالبعلمی سے کیا ان کا کہنا ہے کہ ’’اگر آپ مجھ پر سڑک پر یا میرے گھر میں، میرے کالج میں، یا امام بارگاہ میں حملہ کرتے ہیں تو آپ کیسے توقع رکھتے ہیں کہ میں خود کو مسلح نہ رکھوں۔ پورا شہر اسلحہ سے بھرا ہوا ہے، دنیا کے ہر میٹروپولیٹن میں ایسی ہی صورتحال ہوتی ہے، لیکن کیا ایم کیو ایم کا ہر سیکٹر یا یونٹ تشدد کی لپیٹ میں ہے؟ کیا ہر کارکن دادا یا ٹارگٹ کلر ہے؟ کیا متحدہ کو ملنے والا ہر ووٹ کلاشنکوف کی نوق پر ڈلوایا جاتا ہے؟ نہیں ایسا ہر گز نہیں یہ صرف پنڈی والوں کا خیال ہے‘‘۔

آپریشنل طور پر پنڈی کا منصوبہ سادہ تھا اور 14-2013 کا تسلسل تھا، یہ سب پولیس کے ساتھ شروع ہوا۔ رضوان اختر کے پرانے حلیفوں کے ساتھ، جن کو انہوں نے طاقت دی تھی، کراچی سے پہلے انہیں بچانا ضروری تھا۔ اس لئے نیشنل ایکشن پلان کا 20واں نقطہ مرکزی اہمیت رکھتا ہے  جس میں عدالتی نظام کو بہتر بنانا، انسداد دہشت گردی ڈیپارٹمنٹس کو مضبوط بنانا اور صوبائی سی آئی ڈیز کو دہشت گردوں کے رابطوں تک رسائی کا اختیار دینا شامل تھا۔

یہ وہ چیز تھی جس پر جنرل راحیل شریف نے زور دیا اور بار بار زور دیا۔ پولیس کو ہر حال میں غیرسیاسی ہونا چاہیے اور ان کی تعداد میں اضافہ ہونا چاہیے۔ کراچی پولیس کی بہادری کی داستانیں جے آئی ٹی کے ذریعے سب کو سنائی دیں۔ نیا سیاسی اتفاق رائے سامنے آیا یا پیدا کیا گیا تو پولیس نے انسداد دہشت گردی کے خلاف مہم شروع کی اور القاعدہ اور لشکر جھنگوی کے کارندے سڑکوں پر مرنے لگے۔ اس طرح فوج کراچی میں آئی، بوٹ زمین پر نہیں لگے لیکن فضاؤں میں احکامات گردش کرنے لگے۔

پیپلزپارٹی کی مخالفت سامنے آئی تو وزیراعظم کبھی آصف زرداری تو کبھی وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ اور کبھی ان کے حواریوں کو مناتے رہے، ذوالفقار مرزا کے بیانات اور مسلسل سکینڈلز سے پیپلزپارٹی دباؤ کا شکار بھی ہوئی، اس طرح 1990ء کی سیاست بھی دوبارہ شروع ہوتی نظر آئی، ایم کیو ایم بمقابلہ فوج بمقابلہ دنیا کی صورتحال بھی پیدا ہوگئی۔

فوجی ایڈمنسٹریشن ہو یا سویلین ایڈمنسٹریشن عام طور پر کراچی کی سب سے بڑی جماعت سیاسی لینز کو کسی فارمولا ون ڈرائیور کی طرح آسانی سے تبدیل کرتی رہی ہے، کبھی یہ ماورائے عدالت قتل کا واویلا کرتی تو کبھی مہاجر کارڈ کا استعمال۔ آخر میں اس نے دہشت گردی کے خلاف بیانات کے فیشن کا انتخاب کیا۔ کبھی کبھار یہ شیعہ مخالف پرتشدد کارروائیوں کے پیچھے بھی چھپتی جس کے بارے میں ایم کیو ایم کا کہنا تھا کہ یہ اس کے عہدیداروں کو ٹارگٹ کرنے کی سازش ہے۔

بشکریہ دی نیوز

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: