برطانوی مسلم خاندان مذہبی تعصب کا شکار

انیلا صفدر

لندن سے اٹلی کے شہر نیپلز جانے والے تین بہن بھائیوں کو ایک  صرف داعش سے تعلق ہونے کے شعبے پر رسوائی بھگتنا پڑی۔ 24 سالہ سکینہ دھارس، ان کی 19 سالہ بہن مریم اور 21 سالہ بھائی علی ایزی جیٹ فلائٹ پر سوار ہوئے۔ تاہم لندن سے پرواز بھرنے سے کچھ دیر پہلے ائیر ہوسٹس ان کے پاس آئی اور بولی کہ میرے ساتھ آئیں۔

تینوں بہن بھائی پریشانی کے عالم میں اٹھ کر جب جہاز کے دروازے پر پہنچے تو سامنے مسلح پولیس اہلکار اور ایم آئی 5 کے ایجنٹ موجود تھے جنہوں نے انہیں کھینچ کر جہاز سے اتارا اور اپنے ساتھ لے گئے جہاں ان سے تحقیقات کی گئیں۔ حکام کو شک تھا کہ ان کا تعلق داعش سے ہے۔

سکینہ نے بتایا کہ ایک مسافر نے ان کی شکایت کی تھی۔ مسافر نے انہیں موبائل  کو استعمال کرتے دیکھا جس کی اسکرین پر عربی لکھی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ اسکرین پر ’’ماشا اللہ‘‘ لکھا تھا جس کی وجہ سے مسافروں کو لگا کہ ان کا تعلق داعش سے ہے۔

کلینکل فارمسٹ سکینہ نے بتایا کہ ایم آئی 5 کے ایجنٹ نے  کہا کہ ’’فلائٹ پر ایک مسافر نے کہا ہے کہ تمھارا تعلق داعش سے ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ جب پولیس ساتھ لے گئی تو وہ بہت دکھی تھیں کیونکہ انہیں تو عربی بولنا بھی نہیں آتی، نہ وہ عرب ہیں، وہ تو بھارت سے تعلق رکھتی ہیں۔

سکینہ نے بتایا کہ ان کے بھائی نے تو کوئی اسلامی کام بھی ائیرپورٹ پر نہیں کیا۔ صرف ان کے موبائل میں قرآنی ایپ موجود تھی لیکن انہوں نے ائیرپورٹ یا جہاز میں اسے کھول کر بھی نہیں دیکھا۔

Sakina and Maryam

سکینہ نے بتایا کہ پوچھ گچھ کے دوران ان کی ذاتی زندگی کے حوالے سے تمام معلومات حاصل کی گئیں۔  ان کے واٹس ایپ میسج تک چیک کیے گئے۔ ان کے گھر اور نوکری سے متعلق ایک ایک معلومات پوچھی گئیں۔ تاہم انہوں نے خندہ پیشانی سے تمام باتوں کا جواب دیا کیونکہ ان کے پاس چھپانے کو کچھ بھی نہیں تھا۔

سکینہ نے بتایا کہ آخر میں پولیس نے دھمکی کے انداز میں کہا کہ ہم نے تمھاری تمام معلومات لے لی ہیں۔ ہم نے ہر چیز چیک کرلی ہے۔ ابھی انہیں کچھ  مشکوک نہیں ملا  لیکن اب وہ اس پر نظر رکھیں گے اور اگر کوئی شبہ ہوا تو جلد ہی اس سے دوبارہ ملاقات کریں گے۔

پھر تینوں بہن بھائیوں کو دوبارہ جہاز پر بیٹھا دیا گیا جو ایک گھنٹے تک ان کا انتظار کرتا رہا۔

اپنے فیس بک پر انہوں نے لکھا کہ وہ انتہائی پریشان اور پشیمان تھیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا پولیس اہلکاروں کو دوبارہ جہاز میں آ کر لوگوں کو نہیں بتانا چاہیے تھا کہ ہم نے کچھ نہیں کیا اور ہم معصوم ہیں، پورے راستے لوگ ہمیں عجیب نظروں سے دیکھتے رہے۔ ہم مذاق بن گئے۔ کم از کم وہ یہ کہہ سکتے تھے کہ یہ ایک غلط فہمی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ہماری چھٹیاں تباہ ہو گئیں کیونکہ یہ واقعہ ہمارے دل و دماغ پر تھا۔

ادھر ایزی ائیر کا کہنا ہے کہ جب کوئی مسافر شکایت کرے تو ہمیں ایکشن لینا پڑتا ہے اور اس معاملے میں بھی یہی ہوا۔ دنیا کو یہ بات سمجھنی ہو گی کہ مسافروں کا تحفظ سب سے اہم ہوتا ہے۔ ہم بس اپنے ان تینوں مسافروں سے معذرت ہی کر سکتے ہیں لیکن اس میں ادارے کا کوئی عمل دخل نہیں۔

سکینہ کا کہنا ہے کہ وہ مذہبی تعصب کی عادی ہو چکی ہیں۔ ان کے حجاب کی وجہ سے لوگ مختلف باتیں کرتے رہتے ہیں، کبھی کوئی آواز لگاتا ہے تو کبھی کوئی لیکن اب حالات مزید بدتر ہو گئے ہیں۔ دنیا مسلمانوں کو اب صرف دہشت گرد کے روپ میں پہچان رہی ہے۔

ادھر انسانی حقوق کی تنظیموں نے کہا کہ سیکیورٹی کی ذمہ داری انتہائی ضروری ہے لیکن لوگوں کی تذلیل کو روکا جا سکتا ہے۔ ایسے تمام معاملات میں اگر تفتیش کرنی ہے تو پولیس کم از کم عوامی مقامات پر کھڑا کر کے لوگوں کو بلاوجہ تعصب کا نشانہ نہ بنائے۔

تاہم برطانیہ سمیت بیشتر یورپی ممالک میں اس حوالے سے اب تک کوئی جامع پالیسی نہیں بنائی گئی۔ اگر کوئی ٹھوس اقدمات نہ ہوئے تو شاید پھر ہم مسلمانوں کو تنہا کر کے دہشت گردوں کے چنگل میں پھینک دیں گے۔

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: