کراچی آپریشن،32 سال بیت گئے

کراچی میں 1980ء کے بعد ہی بڑی تعداد میں اسلحہ آنا شروع ہوا۔ یہ افغان روس جنگ کا شاخسانہ تھا جس نے پاکستان میں منشیات کی لعنت بھی وسیع پیمانے پر متعارف کرائی۔افغانستان سے آنے والے مہاجرین میں اسلحے اور منشیات کے اسمگلر بھی شامل تھے۔ وہ اہل کراچی کو سستے داموں اسلحہ فروخت کرنے لگے۔ یوں انہیں شہر قائد کی صورت نئی پُرکشش منڈی مل گئی۔

1985ء کے بعد جب وفاق اور صوبوں میں سیاسی حکومتیں آئیں تو وہ قوانین کی پروا کیے بغیر اسلحے کے لائسنس بانٹنے لگیں۔ چنانچہ وزیروں، مشیروں، ارکان اسمبلیوں وغیرہ نے اپنے چیلے چانٹوں میں بڑی تعداد میں اسلحہ لائسنس تقسیم کردیئے۔ اس منفی رجحان نے بھی معاشرے میں اسلحے کی کثرت کردی۔

1985ء سے ہی کراچی میں لسانی، نسلی اور مذہبی فسادات بھی شروع ہوگئے۔ متحارب گروہ خود کو نت نئے اسلحے سے لیس کرنے لگے۔ اسلحے کی آسان دستیابی سے جرائم پیشہ گروہوں کے بھی وارے نیارے ہوگئے۔

کراچی کا مضافاتی علاقہ سہراب گوٹھ 1986ء تک ’’باڑہ مارکیٹ‘‘ کا روپ دھار چکا تھا۔ وہاں منشیات اور اسلحے کا غیر قانونی کاروبار بھی جاری تھا۔ 12 دسمبر 1986ء کو سندھ حکومت نے ’’آپریشن کلین اپ‘‘ کے ذریعے سہراب گوٹھ میں جرائم پیشہ گروہوں کے اڈے مسمار کر دیئے۔ ان گروہوں نے انتقامی کارروائی کرتے ہوئے معاملے کو لسانی و نسلی رنگ دے ڈالا۔

14 دسمبر کو ان گروہوں کے مسلح کارندے اورنگی ٹاؤن میں داخل ہوئے اور  پنجابی مرد و زن کو قتل کرنے لگے۔ان کے گھر بھی جلائے گئے اور ہر طرح کا جرم حملہ آوروں سے سرزد ہوا۔ یوں کراچی میں ایسے ہولناک نسلی و لسانی فساد کا آغاز ہوا جس کی تپش اب تک سرد نہیں ہوپائی۔ 14 دسمبر کو تقریبا پونے دو سو افراد اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دو بیٹھے اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔

آپریشن بلیو فوکس

رفتہ رفتہ جرائم پیشہ لوگ بھی متحارب سیاسی و مذہبی جماعتوں کے مسلح ونگوں کا حصہ بن گئے۔ اس چلن نے کراچی میں قتل و غارت کو بڑھاوا دیا اور مخالفین پر حملے کرنا معمول بن گیا۔

وفاقی نواز شریف حکومت اور صوبائی حکومت پر یہ دباؤ بڑھا کہ شہر قائد کو جرائم پیشہ گروہوں اور جنگجو سیاسی تنظیموں سے پاک کرنے کی خاطر بڑا آپریشن کیا جائے۔ چنانچہ 19 جون 1992ء کو کراچی میں ’’آپریشن بلیو فوکس‘‘ کا آغاز ہوا جو 16 اگست 1994ء تک جاری رہا۔

یہ آپریشن سندھ پولیس اور پاکستان رینجرز نے مل کر انجام دیا۔ ان دونوں سکیورٹی فورسسزکو انٹیلی جنس ایجنسیوں اور پاک فوج کی حمایت حاصل تھی۔ واضح رہے، اندرون سندھ یہ آپریشن 5 مئی سے جاری تھا جو ڈاکوؤں اور دیگر جرائم پیشہ افراد کے خلاف شروع کیا گیا۔ جون میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کوٹری میں ایم کیو ایم کے مقامی دفتر پر چھاپا مارا۔ان کا دعوی ہے، وہاں سے ’’جناح پور‘‘ کے نقشے برآمد ہوئے۔ اس کے بعد کراچی میں آپریشن کا رخ کسی حد تک ایم کیو ایم کی سمت مڑگیا۔

آپریشن بلیوفاکس نواز شریف حکومت بدل جانے اور مختلف تنازعات میں الجھنے کے باعث مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرسکا۔ تاہم کراچی میں لا اینڈ آرڈر کی صورت حال بہتر ہوئی۔ خصوصاً کار چھیننے اور اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں نمایاں کمی آگئی۔ ایم کیو ایم کا دعویٰ ہے کہ دوران آپریشن اس کے کارکنوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔

جرائم کے نئے رجحان

اکیسویں صدی میں کراچی میں ایک نئی مجرمانہ روش ’’بھتا خوری‘‘ نے جنم لیا۔ موبائل فون کی ایجاد اور موٹر سائیکلوں کی بہتات نے رابطہ کرنا آسان بنایا، تو مجرم اس سے فائدہ اٹھانے لگے۔ آہستہ آہستہ بھتا خوری ایک صنعت کا درجہ اختیار کرگئی جس کی مالیت کروڑوں روپے تھی۔

بھتا طلب کرنے والے جرائم پیشہ افراد تھے اور سیاسی و مذہبی تنظیموں کے کارندے بھی۔ جو شہری بھتا دینے سے انکار کرتا، اسے مار دیا جاتا۔ جلد ہی بھتا خور ایک دوسرے کے علاقوں پر قبضہ کرنے کے لیے آپس میں لڑنے لگے۔ اس رواج نے کراچی میں ایک اور عجوبے ’’ٹارگٹ کلنگ‘‘ کو جنم دے ڈالا۔ بھتا خوروں اور منشیات فروشوں سے لے کر سیاسی و مذہبی تنظیموں کے جنگجوؤں تک،سبھی ایک دوسرے کے مخالفین کی ٹارگٹ کلنگ کرنے لگے۔ کبھی یہ تصادم نسلی،لسانی یا مذہبی چولا بھی پہن لیتا۔

رینجرز آپریشن

اہل کراچی کے پُر زور مطالبے پر 5 ستمبر 2013ء کو نوازشریف حکومت نے شہر میں نیا عسکری آپریشن شروع کرنے کی منظوری دے دی۔  اس آپریشن کا نشانہ جرائم پیشہ افراد کو بننا تھا۔ چاہے ان کا تعلق کسی بھی سیاسی، مذہبی اور معاشرتی تنظیم یا جماعت سے ہو۔ آپریشن انجام دینے کی ذمے داری سندھ رینجرز کو سونپی گئی جس کے تب سربراہ میجر جنرل رضوان اختر تھے۔ مجرموں تک رسائی کی خاطر رینجرز کو تفتیش اور گرفتار کرنے کا حق دیا گیا۔ کراچی پولیس اور وفاقی و صوبائی انٹیلی جنس ادارے رینجرز کے معاون قرار پائے۔

آپریشن انجام دینے والی سکیورٹی فورسسز کو پاک فوج کی مکمل حمایت حاصل تھی۔جب نومبر میں جنرل راحیل شریف نے فوج کی کمان سنبھالی تو اس حمایت میں نئی توانائی،نیا جوش ولولہ آ گیا۔دسمبر میں آرمی اسکول میں دہشت گردی کا المناک واقعہ پیش آیا۔تب پوری قوم دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرنے لگی۔اس واقعے نے بھی یہ تاثر ابھارا کہ کراچی میں رینجرز آپریشن کامل طاقت سے کیا جائے۔

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پولیس اور رینجرز نے گذشتہ پانچ برسوں میں مختلف علاقوں میں 70 ہزار سےزائد ٹارگٹڈ آپریشن کیے ہیں، جن میں 80 ہزار سے زائد ملزمان گرفتار ہوئے ہیں۔

حکومت سندھ کی سپریم کورٹ میں پیش کردہ رپورٹ کے مطابق 5برسوں کے دوران غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے جرم میں 1500 اور دھماکہ خیز مواد رکھنے کے الزام میں 450 ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے۔

ایک لاکھ سے زائد افغان شہریوں پر بھی نظر رکھی گئی ہے اور غیر قانونی طور پر مقیم 28 سے زائد افغانیوں کو گرفتار کرمقدمات دائر کیے گئے ہیں، پولیس نے عدالت کو آگاہ کیا کہ سنگین نوعیت کے 105 مقدمات کو فوجی عدالتوں کو بھجوائے گئے ہیں۔

یہ واضح رہے کہ رینجرز 1992ء سے کراچی میں موجود ہیں۔تاہم انہیں مجرم گرفتار اور ان سے تفتیش کرنے کے اختیارات حاصل نہیں تھے۔جب حالیہ آپریشن شروع ہوا تو 1997ء کے انسداد دہشت گردی قانون میں جامع ترمیمات کی گئیں۔تب اس قانون کے ذریے رینجرز کو خصوصی اختیارات دئیے گئے تاکہ وہ شہر قائد سے جرائم پیشہ مافیاؤں کا خاتمہ کر سکیں۔

کرپشن کے خلاف مہم

ماہ اگست 2015ء سے رینجرز کرپشن مافیا کے خلاف بھی سرگرم عمل ہوگئے۔ اس ضمن میں پہلے ان مقامی وصوبائی سرکاری اداروں کو نشانہ بنایا گیا جہاں بقول رینجرز کے سرکاری افسر اور سیاست دان مل بانٹ کر حرام کی کمائی کھارہے تھے۔ زمینوں پر قبضہ کرنے والی مافیا اور چائنا کٹنگ کے مرتکب بھی اس مہم میں گرفتار کیے گئے۔

اہل کراچی نے کرپٹ مافیا کے خلاف رینجرز کے اقدامات کو بھی پذیرائی بخشی۔ دراصل کرپشن ہی کے بطن سے جرائم جنم لیتے ہیں اور جرائم کے ذریعے دہشت گردی وجود میں آتی ہے۔ لہٰذا دہشت گردی اور جرائم کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے کرپشن بلکہ ہر قسم کی بے ایمانی کا خاتمہ کرنا ضروری ہے۔

تاہم سرکاری افسروں اور سیاست دانوں کی گرفتاری نے صوبائی حکومت اور سیاسی جماعتوں کو پریشان کردیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ بے گناہ افسروں اور سیاسی لیڈروں کو بھی گرفتار کیا جارہا ہے۔ چنانچہ کرپشن مخالف مہم شروع کرنے کی وجہ سے رینجرز آپریشن متنازع ہوگیا۔

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: