غلاموں کی تجارت اور خرید و فروخت دنیا کے ہر ملک میں جرم قرار دے دی گئی ہے لیکن غلامی کی نئی شکلیں تراش لی گئی ہیں۔ بھارت اس وقت غلاموں کی تجارت کے حوالے سے بدترین ملک ہے جہاں خواتین اور عورتیں شادی کے نام پر بیچی جا رہی ہیں۔
بھارت میں معاشی عدم مساوات، غربت اور بدعنوانی کی وجہ سے ’برائیڈل سلیوری‘ یعنی غلام دلہنوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ خواتین اور نوجوان لڑکیاں چند ہزار روپے میں شادی کے نام پر بیچ دی جاتی ہیں جس کے بعد ان کا مقدر دن رات محنت مشقت کرنا اور جنسی تشدد سہنا بن جاتا ہے۔
ایسا ملک جہاں لڑکیوں کی پیدائش کو ہی مالی بوجھ سمجھا جائے، اور بیٹیوں کو ماں کی کوکھ میں ہی مار ڈالا جاتا ہوپہلے ہی خواتین مردوں سے کم رہ گئی ہیں۔ جہیز کی لعنت بھی غربا کو اپنی بیٹیاں بیہانے کے بجائے فروخت کرنے پر اکساتی ہے۔
جمیلہ بھی انہیں لڑکیوں میں شامل ہے جس کو اغوا کے بعد فروخت کر دیا گیا۔ جس کو نشہ دینے کے بعد ایک تشدد پسند شخص کو بیچ دیا گیا۔ جمیلہ کہتی ہے کہ اس کا نام نہاد شوہر دن رات تشدد کرتا تھا۔ دن رات شدید گرمی میں مشقت لی جاتی تھی، ایسی زندگی تو جینے کے قابل بھی نہیں تھی۔
شفیق خان بھارت میں غلامی کی دلدل میں پھنسی ان دلہنوں کی مدد کے لئے تنظیم چلاتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یہ خواتین دہرے عذاب میں پھنسی ہوتی ہے۔ ایک طرف تو انہیں جنسی غلام بنایا جاتا ہے اور صرف شخص نہیں بعض مرتبہ دس دس، بارہ بارہ افراد کا گروہ بھی انہیں جنسی تشدد کا نشانہ بناتا ہے۔ اس کے بعد انہیں کھیتوں میں دن رات کام کرنا پڑتا ہے اور ساتھ میں مویشیوں کو بھی سنبھالنا ہوتا ہے۔
ظلم و ستم کی داستان یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ یہ خواتین ایک سے دوسرے ہاتھوں میں بھی فروخت کی جاتی ہیں۔ پانچ سے چھ ہزار میں لڑکی کو خرید کر اپنی جنسی تسکین پوری کرنے کے بعد انہیں ’’منافع‘‘ کما کر آٹھ سے دس ہزار میں آگے فروخت کر دیا جاتا ہے۔
بھارتی ریاست ہریانہ کے ہر گاؤں سے اوسطاً 10 لڑکیاں ایسی ہیں جو اس غلامی میں دھکیل دی گئیں، کہیں پر خود ان کے ماں باپ نے شادی کے نام پر ان کی قیمت وصول لی تو کہیں اغوا کاروں نے انہیں فروخت کر دیا۔
خصوصی شکریہ الجزیرہ