جرائم پیشہ افراد کو جانے دو، سیاسی قیدی رکھو

رابرٹ فسک

ترکی میں نمبروں کا کھیل شروع ہو گیا۔ ترک جیلوں میں مارچ میں 1لاکھ 82ہزار قیدی موجود تھے۔ ناکام بغاوت کے بعد اب تک پولیس اور سیکورٹی اداروں نے 23ہزار فوجیوں، سرکاری افسران، ججوں، صحافیوں اور اساتذہ کو گرفتار کیا ہے۔ ان کو یا تو پوچھ گچھ  کے لئے یا براہ راست بغاوت میں ملوث ہونے کے جرم  میں گرفتار کیا گیا ہے۔تاہم کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کی تعداد 38زار کے قریب ہے۔

اب انکشاف ہوا ہے کہ طیب اردوان نے یکم جولائی کو اپنی جیلوں سے 38ہزار قیدیوں کو رہا کیا۔ ان جرائم پیشہ افراد نے بے شک طیب اردوان کے خلاف بغاوت میں شرکت نہیں کی تھی۔  تاہم اب بہت سے سوال پیدا ہو رہے ہیں۔

ان 38ہزار قیدیوں نے سلطان کے نئے قیدیوں کے لئے بہت بڑی جگہ بنائی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ جیلوں سے قیدیوں کی رہائی اصلاحاتی پالیسی کا حصہ ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں کیا گیا کہ کیا یہ لوگ سدھر چکے ہیں اور آئندہ ایسی کوئی حرکت نہیں کریں گے؟ ان پر لگے الزامات پر کی روشنی میں ایمنسٹی کا کہنا  ہے کہ ایسے لوگوں کی رہائی معاشرے کے ساتھ ناانصافی ہے۔

یہ انتہائی دلچسپ امر ہے کہ ترکی نے کس طرح اپنی جیلوں سے قیدی خالی کر دیئے۔ زیادتی، قتل اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث افراد کو رہا کر دیا گیا۔ اس سے ایک نیا سیاسی مسئلہ پیدا ہونے جا رہا ہے۔ آپ کا خیال ہے کہ 38ہزار شخص ان جیلوں میں خاموشی سے بیٹھ کر مر جائیں گے ۔ آپ ایسا سوچتے ہیں تو غلط ہے کیونکہ انسانی تاریخ میں آج تک ایسے نہیں ہوا۔

1980میں جب ترک فوج نے بغاوت کی تھی تو انہوں نے بھی جیلوں میں اصلاحات کر کے قیدیوں کی تعداد بڑھائی تھی اور 25ہزار افراد کی گنجائش پیدا کی ۔ اس بغاوت کے خلاف بائیں اور دائیں بازو نے بھرپور تحریک چلائی جو کئی برسوں تک جاری رہی۔ ترکی کئی سال تک خانہ جنگی کی حالت میں رہا۔ ان قیدیوں کو برسوں بغیر مقدمے کے جیلوں میں رکھا گیا۔

اب بھی یوں محسوس ہو رہا ہے کہ نئے سیاسی قیدیوں کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک ہو گا اور انہیں بھی برسوں بغیر مقدمے کے جیلیں بھگتنا پڑیں گی کیونکہ انہیں گولان کا نظریہ درست لگتا تھا۔

سلطنت عثمانیہ کے دور سے اب تک ترک جیلوں کی روایت انتہائی تاریک ہے۔ یہاں سیاسی مخالفین کے ساتھ بدترین سلوک کیا جاتا ہے۔ فوج اقتدار میں ہو تو سیاسی کارکن موت کی تمنا کرتے ہیں ۔ جمہوری حکومت میں مخالفین بھی مرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

حالیہ دور کی بات کی جائے تو کرد ستان ورکرز پارٹی کے سربراہ عبداللہ اوکلان  ہی کو دیکھ لیں۔ وہ امرالی آئرلینڈ کی جیل میں ہیں۔ ان پر الزام لگا کہ دوران قید انہوں نے جیل میں خودکشی کی کوشش کی جس کی وجہ سے قید تنہائی میں منتقل کر دیا گیا۔ اس بات کو ساڑے آٹھ سال بیت چکے ہیں۔ عبداللہ اب بھی قید تنہائی میں ہے۔ کیا دنیا میں کسی نے اس شخص کو آزاد کرانے کی کوشش کی، نہیں۔ بیشتر تو اس کے بارے میں جانتے بھی نہیں۔کبھی کبھی کرد مظاہروں میں ان کی تصویر نظر آ جاتی ہے۔

ان کے ساتھی دیار بکر کی جیل میں بھرے پڑے ہیں۔ ان کی فوج سے بدترین لڑائیاں وقفے وقفے سے جاری رہتی ہیں۔ ان لڑائیوں کے نتیجے میں قیدی نہیں بس لاشیں ملتی ہیں۔ پھر بھی شمالی مشرق کی تمام جیلیں بھری ہوئی ہیں۔ 1984سے اب تک 24ہزار سے زائد کرد مارے جانے کی اطلاعات ہیں۔

اس صورت حال میں لڑائی انتہائی سخت ہے۔ حکومت بھی بے بس ہے۔ وہ ایسے میں جیلوں سے جرائم پیشہ افراد کو ہی رہا کرے گی کیونکہ ان سیاسی قیدیوں کو رہا کرنا ممکن نہیں۔ اب تک حکومت ہزاروں فوجیوں، پولیس اہلکاروں اور سول افسران کے خلاف کارروائی کر چکی ہے لیکن ایک بھی جیل وارڈن فارغ نہیں کیا گیا کیونکہ یہ ترکی میں تمام حکمرانوں  کے پسندید ہ ترین لوگ ہوتے ہیں۔

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: