روسی طیارے ایرانی ائیربیس پر، مقاصد کیا ہیں؟

جسٹن برونک (الجزیرہ خصوصی رپورٹ)

روس شامی صدر بشار الاسد کے مخالفین کے خلاف بدترین بمباری کر رہا ہے۔ یہ سلسلہ پچھلے ستمبر سے جاری ہے کہ جب روس پہلی بار کھل کر میدان میں اترا اور اپنی جنگی صلاحیت کا استعمال کیا۔

ابتدائی طور پر روس ’’ٹی یو 22‘‘ ایم 3بیک فائر اور ’’ایس یو 34‘‘فل بیک اپنی سرزمین سے اڑ کر یہ کارروائیاں کر رہے تھے۔ تاہم اب بتایا گیا ہے کہ طیارے  ایران کی ہمدان ائیربیس پر موجود ہیں اور شام میں اپنے آپریشن سر انجام دے رہے ہیں۔

ٹی یو 22 روس کے سپرسانک بمبار طیارے ہیں جو 200میٹرک ٹن کا بارودی مواد اپنے ساتھ لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان طیاروں کے نشانے  سے تمام حریف آگاہ ہیں۔ یہ بمباری کے حوالے سے مہلک ترین ہتھیاروں میں سے ایک ہیں۔

یہ طیارے 1970میں سرد جنگ کے دوران منظر عام پر آئے لیکن اب یہ صرف مقبوضہ شہروں اور دشمن پر وسیع بمباری کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ایران سے ان طیاروں کا شام  کا سفر 60فیصد کم ہو جاتا ہے۔ روس سے یہ سفر لمبا اور انتہائی مہنگا ہے۔

بے شک اس سے روس کے اخراجات کم ہوئے ہیں لیکن ابھی یہ تعین کرنا باقی ہے کہ روسی ائیرفورس اس کا کس حد تک فائدہ اٹھا سکتی ہے؟روسی ائیرفورس کی صلاحیت کے بارے میں بہت سے تحفظات موجود ہیں کیونکہ ایک وقت میں وہ اپنے جہازوں کی دیکھ بھال کے لئے زیادہ کریو بھی مختص کرنے کے قابل نہیں ۔ سب جانتے ہیں کہ روس میں جنگی فنڈز کی قلت موجود ہے اور یہ چین اور امریکہ کی طرح نہیں ہیں۔

ابھی تک یہ بھی نہیں معلوم کہ آخر روس نے ہمدان ائیربیس کو قابل استعمال بنانے کے لئے کتنے پیسے خرچ کیے ہیں؟اگر یہ صرف ایک سیاسی چال ہوئی اور روس کا مستقل فوجی اڈا بنانے کا کوئی مقصد نہ ہوا تو پھر اس صورت میں شام میں فضائی کارروائی تیز نہیں ہو گی۔

ہمدان سے اڑنے والے روسی ایس یو 34نئے لڑاکا طیارے ہیں۔ روسی مداخلت کے ابتدائی دنوں  میں ہی ان طیاروں نے شام کے شہر لتاکیہ سے مخالفین پر بمباری شروع کر دی تھی۔ تاہم مارچ 2016میں ان طیاروں کو شام سے نکال لیا گیا تھا۔اب یہ طیارے بھی ایران سے پرواز کر کے ایک لمبا سفر طے کرنے کے بعد مخالفین پر حملے کر رہے ہیں۔ صرف ان کی بات کی جائے تو یہاں روسی اخراجات میں اضافہ ہوا ہے۔

ان طیاروں کو ایران میں رکھنے کا مقصد صرف داعش کا خطرہ ہے جنہوں نے راکٹ حملے میں 4 ہیلی کاپٹر اور 20لاریاں تباہ کر دیں تھیں۔ اس حملے کے بعد روس انتہائی محتاط ہو گیا ہے۔روس کے پاس ایس یو 34طیاروں کی شدید قلت ہے لیکن کیونکہ ان کے بارے میں بے تحاشہ پراپیگنڈا کیا جا چکا ہے، اس وجہ سے ان  کو اب تک میدان جنگ میں رکھا گیا ہے۔

ماسکو چاہتا ہے کہ یہ طیارے جنگ میں شامل رہیں کیونکہ اگر انہیں دوبارہ ملک میں کسی ائیر بیس پر کھڑا کر دیا گیا تو شاید یہ بھی بہت سے اسلحے کی طرح ناکارہ ہو جائیں گے۔

ان دو طیاروں کی موجودگی میں اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ ایران ہمدان بیس  سے کوئی بہت بڑی تبدیلی آئے گی یا پھر شام میں روسی بمباری بڑھ جائے گی ۔ ایس یو 34 لتاکیہ سے زیادہ بہتر انداز میں کارروائی کر سکتے تھے ۔ اگر مقصد صرف حملوں میں اضافہ ہوتا تو انہیں کبھی ایران نہ بھیجا جاتا۔

یوں ٹی یو 22 کو بمباری کے لئے ہمدان ائیر بیس پر بہترین انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے روس کو بھی وہاں بارودی مواد پہنچانا ہے اور پھر جہازوں میں لوڈ کرنا ہے لیکن یہ سہولت ہمدان میں اچھی نہیں۔

اگر یہ سب ہو بھی جائے تو  روس کے لئے اب کرپٹ بمباری کرنا ممکن نہیں ہو گا کیونکہ پوری دنیا کی نظر شام پر ہے اور ایسی بمباری سے سویلین اموات ہوں گی۔ روس کسی بھی صورت میں مزید عالمی تنہائی نہیں بڑھائے گا۔

یہ فیصلہ سیاسی لگتا ہے تاکہ روس بھی اپنے آپ کو امریکہ کی طرح طاقتور ثابت کر سکے۔ وہ دنیا کو یہ بتا سکے کہ اس کے پاس بھی بیرون ملک ائیر بیس موجود ہیں۔ ایران بھی اس طرح دنیا کو بتا سکتا ہے کہ خلیجی ممالک کی طرح اس کے ساتھ بھی ایک بہت بڑی طاقت موجود ہے جس کے طیارے ہر خطرے میں اس کے ساتھ موجود ہیں۔

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: