لندن،واشنگٹن،ریاض ،بیجنگ اورانقرہ کے غلاموں کا جشن آزادی

سبز ہلالی پرچوں کی بہار ،گلی ،محلے ،بازار ،مارکیٹیں اورپلازے برقی قمموں سے آراستہ ،جشن اورخوشیوں کا عجیب سماں تھا،سبھی متفق ہیں کہ آزادی کاجشن منایا جائے مگر کیا کروں دل ہے کہ مانتا نہیں ،سوچتاہوں آزادی ملی کب؟۔

پہلے اقتدار اورطاقت کا ایک مرکز لندن تھا ،اس سے آزادی ملی تو واشنگٹن کی حکمرانی قبول کرلی ،خون میں غلامی کے جراثیم تو ازل سے ہیں ،ایسے کہ آزاد ہونے ہی نہیں دیتے ،خطے کی تقسیم سے قبل برطانوی سامراج سے وفاکی آخری حدوں کو چھو کر انعام وکرام لینے کی لت ایسی پڑی کہ جاتی ہی نہیں ،برصغیر کے مسلمانوں کےلئے الگ وطن پاکستان بنا کر وہی طبقہ حکمران بن گیا، غلامی کا عنصر خون میں ایسے شامل ہوا کہ آزادی قبول کرنے کو تیار ہی نہیں ،لندن سے پوری طرح نجات تو کیا حاصل کرنا تھی ساتھ ساتھ نیویارک کی غلامی کا طوق بھی گلے میں ڈال لیا۔

برصغیر کی تقسیم سے قبل صرف اپنی قوم سے غداری کرتے ، ملک بن گیا تو ملک کے ساتھ بھی وہی سلوک ،بس دولت چاہئے ،عالمی مالیاتی اداروں سے بھاری قرضے لیکر سوئس اکاﺅنٹ بھرنے اورآف شور کمپنیاں بنانے کا کام امریکی غلامی کے بغیر ممکن نہ تھا سو دولت کے لالچ میں امریکی غلامی قبول کرلی ،نام دیا ملکی مفادات ،سٹریٹجک تعلقات اورنہ جانے کیا کیا ۔دولت کی لگی لت ختم کیسے ہو،چلتی رہی ،ملکی مفادات کےلئے آئندہ بھی چلتی رہے گی ،کبھی ملکی سالمیت کے تحفظ کے لئے اسلحہ کی خریداری تو کبھی ترقیاتی کاموں کےلئے امداد کا رونا،حقیقت مگر وہی، پہلے بھی عرض کر چکا ہوں ،دولت اور صرف دولت،کبھی زلزلہ زدگان کےلئے بھیک تو کبھی سیلاب زدگان کےلئے امداد،کسی بھی بہانے سہی پیسہ تو ملتا ہے، ،لندن اورواشنگٹن جاکر سرجھکا نے میں کیا حرج جب پاکستان میں نہ ختم ہونے والا پروٹوکول ،مان مریادا ،دین دھرم پرانی باتیں ،نیا کچھ ہے تو صرف پیسہ ،کتنی ہی غلامی کیوں نہ کرنی پڑے ،کوئی مضائقہ نہیں ،سوچ تو بس یہی ہے ،معاشی یا معاشرتی آزادی کچھ بھی نہیں چاہئے ضروری ہے تو صرف پیسہ ،نہ ختم ہونے والا جنون ،دولت کی ہوس ،کوئی بھی دے غلامی کےلئے تیارتو بات صرف واشنگٹن ہی پرختم کیوں۔ ریاض اوربیجنگ بھی تو ہیں ،کہیں سے مفت تیل ملے ،کوئی اقتصادی راہداری کےلئے بھاری سرمایہ کاری کرے،پیسہ تو ملے گا،کہیں مفت کے تیل پر ٹیکسوں کی مدمیں تو کہیں راہداری کی تعمیر میں ٹھیکوں کی صورت میں ،حکم کی بجاآوری میں کوئی حرج نہیں ،نام تو ملکی مفادات کا ہی چلے گا،بہترین قومی مفاد کے نام پر بھلے جو مرضی کرتے رہیں ،عوام کو تو چکمہ یہی دینا ہے کہ یہ ملکی مفاد ہے۔

ساری دنیا جانتی ہے کہ امریکیوں سے دوستی ،اس کی دشمنی سے زیادہ نقصان دہ ہے ،یہ دوست بن کر پیٹھ پروار کرتے ہیں ،آستین کے سانپ بھی کہنا غلط نہ ہوگا،مگر ہم تو قومی مفاد میں اس کو سب کچھ دینے پر تیار ،غلامی میں لیں ،پیسہ دیں تو سب کچھ قومی مفاد بن جائے ،بھلے ہرایرا غیرا نتھو خیرا پاکستان کی سالمیت کی دھجیاں اڑائے یا پاکستانی قانون کو جوتے کی نوک پر رکھے ،کھلے عام پاکستان کو قتل کرے یا بغیر پاسپورٹ اورویزے کےلئے خصوصی راستوں سے دندناتا ہوا پاکستان آئے،کوئی بات نہیں ،پیسہ تو ملتا ہے ،غلامی ہے تو کیا ہوا،دولت تو دن دوگنی رات چوگنی سپیڈ سے بڑھ رہی ہے ،مقصد تو بس ٰیہی ہے پورا ہورہا ہے۔

پہلے صرف اپنی قوم بیچ کر جاگیریں اورانعام وکرام لیتے ،اب قومی مفادات بیچ کر ،پیسہ تو بہرصورت مل ہی رہا ہے ،لندن ہو یا واشنگٹن فرق نہیں پڑتا ،ریاض ہویا بیجنگ اس میں کوئی حرج نہیں ،پیسہ ملنا چاہئے ،مان مریادا جائے بھاڑ میں ،ڈالرنہ جائے ،چاہے نقدنہ سہی ، کاروبار کی صورت میں ہی ملے ،نئی دہلی ہو یا انقرہ ،کوئی پیسے نہ دے تو پیسے رکھنے کےلئے جگہ دے ،غلامی سے پیچھے نہیں ہٹیں گے ،جو حکم ہوگا بہرحال بجالائیں گے ،کچھ ڈالر یا پھر ڈالر رکھنے کی جگہ دیں سب کچھ آپ کےلئے حاضر،قومی اورملکی مفاد کیا سب کچھ حاضر۔۔۔۔

پھر بھی سبھی متفق کہ جشن آزادی منایا جائے ،کاش کوئی تو بتائے کہ کون سی آزادی کا جشن منارہے ہیں ،14اگست 1947کو برطانوی سامراج سے آزادی لی ،پھر اسی سامراج کے بھیجے ہوئے غنڈوں کی غلامی میں چلے گئے جو کولمبس کے امریکہ دریافت کرنے کے بعد وہاں جا بسے ،غلامی کا چسکا تو ازل سے ہے تو پھر آزادیوں کا جشن کیوں ؟؟پہلے تو صرف ایک طاقت کا مرکز تھا وہیں سے احکامات صادر ہوتے تھے ،ہم پیسے کے جنون میں یوں مبتلا ہوگئے کہ لندن سے آزادی تو کیا لینی تھی واشنگٹن کو بھی آقا بنالیا ،پھر بھی غلامی کا چسکا پورا نہ ہوا تو ریاض کی بیعت کرلی ،پھر بھی اس فیلڈ میں کچھ مزید کرنے کی دھن سرپرسوار رہی اوربیجنگ کو بھی آقامان لیا ،غلامی کے جراثیم یہاں بھی رکنے نہیں دے رہے ،غلامی کے جرثومے ڈومور کا مطالبہ کرنے سے باز نہیں آتے اورانقرہ کی غلامی بھی قبول کرلی۔۔۔۔کچھ تو لوگ کہیں گے ،لوگوں کا کام ہے کہنا۔۔۔۔ہمیں لوگوں سے کیا لینا ،جو بھی کرنا ملکی مفاد میں ،قومی مفاد میں ،غلامی کا سفر یہیں ختم نہیں ہوا ابھی اورچلے گا،لندن ،واشنگٹن ،ریاض اوربیجنگ کی جانب سے احکامات جاری کرنے کے بعد انقرہ کی طرف سے پاک ترک سکول بند کرنے کے احکامات کے بعد سب پر یہ واضح ہوجانا چاہئے کہ ہمارا غلامی کا چسکا جا نہیں سکتا ،خون میں شامل غلامی کے جرثومے ہم سے ڈومور کا مطالبہ کر رہے ہیں ،اورہم غلامی کرنے کو بھی تیار ہیں ،بس تھوڑے سے ڈالر یا ڈالر رکھنے کی جگہ دیں اورشامل ہوجائیں ہمارے آقاﺅں میں زندگی بھر کےلئے ،غلامی میں اپنی مثال آپ ہیں ہم ،پھر بھی جشن آزادی ۔۔بھئی کیوں؟؟

logo saleem (1) copy

میاں محمد سلیم سینئر صحافی ہیں جو بطور ورکنگ جرنلسٹ ایکسپریس، دنیا، جنگ گروپ، خبریں، آج کل، مسافت اور نئی خبر میں کام کرنے کے بعد ان دنوں روزنامہ نئی بات سے وابستہ ہیں۔

انہوں نے بطور کالم نگار سفر کا آغاز1999ء میں روزنامہ مساوات سے کیا، روزنامہ پاکستان، مسافت، نئی خبر، پوسٹ مارٹم، آج کل، ندائے ملت اور دیگر اخبارات میں ان کے کالم باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں۔

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: