چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کے بعد پاک فوج کا سربراہ کون ہو گا ؟ آرمی چیف توسیع نہ لینے کا اعلان کر چکے ہیں۔ اب یہ وزیراعطم نواز شریف کی صوابدید ہے کہ وہ پاک فوج کی کمانڈ کسے سونپتے ہیں ۔
نوازشریف اور آرمی چیف
آرمی چیف اور سنیارٹی
اگر سنیارٹی لسٹ کو دیکھا جائے تو سب سے پہلا نام لیفٹیننٹ جنرل مقصود احمد کا ہے لیکن وہ مدت ملازمت میں توسیع کے بعد کام کر رہے ہیں اس لیے ان کے آرمی چیف بننے کا امکان نہیں ۔
ان کے بعد چیف آف جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل زبیر حیات ہیں جو سٹریٹجک پلان ڈویژن کے ڈائریکٹر جنرل اور کورکمانڈر بہاولپور رہ چکے ہیں۔ کور کمانڈر ملتان لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم احمد، کور کمانڈر بہاولپور لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال رمدے اور انسپکٹر جنرل ٹریننگ اینڈ اویلی ایشن لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ کے نام بھی سنیارٹی لسٹ میں ہیں۔
پرویز مشرف فورسٹار جنرل بننے والے آرٹلری کے آخری جنرل تھے ان کے بعد اس منصب تک پہنچنے والے تمام جنرلز، جنرل طارق مجید، جنرل خالد شمیم وائیں، جنرل اشفاق پرویز کیانی، جنرل راشد محمود اور جنرل راحیل شریف کا تعلق انفنٹری ڈویژن سے ہے۔ اس کی ایک وجہ پاک فوج کا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سرگرم ہونا بھی ہے۔
تاریخ کو دیکھا جائے تو چودہ فور سٹار جنرلز میں سے نو چیف آف جنرل سٹاف رہے جو کہ آرمی چیف کے بعد پاک فوج کا سب سے اہم عہدہ ہے۔ چیف آف جنرل سٹاف آپریشن اور انٹیلی جنس دونوں ڈھانچوں کی قیادت کرتا ہے۔ اس مرتبہ آرمی چیف کے امیدوار جنرل زبیر اس عہدے پر تعینات ہیں جبکہ جنرل اشفاق اس عہدے پر ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل زبیر حیات کے بعد لیفٹیننٹ جنرل سید واجد حسنین اور لیفٹیننٹ جنرل نجیب اللہ خان بھی سینئر ترین جنرل ہیں لیکن ان دونوں نے چونکہ اب تک کسی کور کی کمانڈ نہیں کی، اس لئے انہیں آرمی چیف بنائے جانے کا امکان بہت کم ہے۔
اس طرح آرمی چیف کے صرف چار امیدوار بچتے ہیں اور یہ چاروں 62ویں پی ایم اے لانگ کورس سے پاس آؤٹ ہوئے ہیں، اس طرح وزیراعظم سنیارٹی لسٹ میں بڑی تبدیلی سے بچتے ہوئے کسی کو بھی سپہ سالار بنا سکتے ہیں۔
چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی: جوہری اثاثوں کا کمانڈر
آرمی چیف کا طریقہ انتخاب اور عوامل
لیفٹیننٹ جنرل زبیر حیات آرٹلری سے ہیں اور اس وقت چیف آف جنرل سٹاف کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ تھری سٹار جنرل کے طور پر وہ ڈائریکٹر جنرل سٹریٹجک پلان ڈویژن بھی رہے ہیں جو کہ نیشنل کمانڈ اتھارٹی کا سیکریٹریٹ ہے۔ سابق کور کمانڈر بہاولپور جنرل زبیر حیات چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے موزوں ترین امیدوار بنتے ہیں جو جوہری اثاثوں کا نگرن ہوتا ہے۔
سٹریٹجک پلان ڈویژن سے کسی کی بری فوج میں واپسی کبھی کبھار ہی ہوتی ہے، اور جنرل زبیر حیات یہ کارنامہ بھی دکھا چکے ہیں، اس لئے انہیں فور سٹار جنرل کا مضبوط امیدوار تصور کیا جا رہا ہے۔
بطور چیئرمین جوائنٹ سٹاف اور ڈائریکٹر جنرل ایس پی ڈی وہ وزیراعظم اور وزیرداخلہ کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔
بطور میجر جنرل وہ جنرل آفیسر کمانڈنگ (جی او سی) سیالکوٹ رہے۔ بعد میں انہوں نے سٹاف ڈیوٹیز ڈائریکٹوریٹ کی سربراہی کی جس کو پاک فوج میں ’کاغذی شیر‘ کہا جاتا ہے۔ آرمی چیف کے پرنسپل سٹاف آفیسر کے طور پر وہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بہت قریب رہے۔
جنرل زبیر حیات کی بنیادی کمزوری یہ ہے کہ انہوں نے کبھی جنگ زدہ علاقے میں کام نہیں کیا۔
ان کے والد میجر جنرل کے طور پر ریٹائر ہوئے ان کے دو بھائی بھی جنرل ہیں، لیفٹیننٹ جنرل عمر حیات پاکستان آرڈیننس فیکٹری واہ کے چیرمین جبکہ میجر جنرل احمد محمود حیات آئی ایس آئی میں ڈائریکٹر جنرل (اینیلسز) ہیں۔
دوسرے مضبوط امیدوار لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم احمد کو ’ٹیکسٹ بک کیریئر‘ کے لئے جانا جاتا ہے۔ وہ بطور کور کمانڈر ملتان ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں جبکہ اس سے پہلے چیف آف جنرل سٹاف رہ چکے ہیں۔
جنرل راحیل شریف نے آرمی چیف بنتے ہی جو پہلے کام کئے ان میں جنرل اشفاق ندیم کو چیف آف جنرل سٹاف مقرر کرنا بھی تھا، جنرل اشفاق ندیم کو موجودہ آرمی چیف کی کامیابی کے پیچھے اہم ترین طاقت قرار دیا جاتا ہے۔
جنرل راحیل شریف کو شمالی وزیرستان میں آپریشن ضربِ عضب کی کامیابی پر ملک اور بیرون ملک خوب تعریف ملی لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس آپریشن کا بلیو پرنٹ جنرل اشفاق ندیم نے بطور ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز بنایا تھا۔ وزیراعظم نوازشریف کو جی ایچ کیو میں اس آپریشن پر بریفنگ دی گئی جنہیں کی منظوری انہوں نے اگست 2013 میں دی۔
جنرل اشفاق نے سوات آپریشن میں بطور میجر جنرل اور وزیرستان میں بریگیڈیئر کے طور پر بھی حصہ لیا۔
لیفٹیننٹ کرنل کے طور پر آپریشنز ڈائریکٹوریٹ میں کام کرنے والے جنرل اشفاق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پاک فوج میں ان سے بہتر آپریشنز کو کوئی نہیں سمجھتا۔
اس وقت وہ میکانائزڈ کور کی سربراہی کر رہے ہیں جو انفنٹری کے کسی بھی افسر کے لئے سب سے بڑا اعزاز سمجھا جاتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ان کا تعلق آزادکشمیر رجمنٹ سے ہے اور ان کی ترقی فوج میں اس چھوٹے سے گروپ کے لئے بڑی کامیابی ہوگی۔
ذرائع کے مطابق ان کا انداز بہت تحکمانہ ہے اور وہ سخت باتیں صاف صاف کہنے کے عادی ہیں۔ چیف آف جنرل سٹاف کے طور پر وزیراعظم ہاؤس میں ان کی سخت باتیں پسندیدگی سے نہیں دیکھی جاتی تھیں۔ لیکن وہ انتہائی غیرسیاسی ہیں اور حکومت کے لئے انہیں نظرانداز کرنا بہت مشکل ہے۔
آرمی چیف کے امیدواروں میں کور کمانڈر بہاولپور لیفٹیننٹ جنرل اقبال رمدے کا نام بھی شامل ہے جو نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے صدر رہ چکے ہیں۔
سوات آپریشن کے دوران وہ جی او سی سوات تھے، 2011 میں دہشت گردوں نے ان کے ہیلی کاپٹر کو نشانہ بنایا جس میں وہ زخمی بھی ہوئے۔ اگلے چار سال وہ این ڈی یو میں رہے، جہاں پہلے وہ کمانڈنٹ اور چیف انسٹرکٹر رہے بعد میں صدر کے عہدے پر پہنچے۔ ان کا تعلق انفنٹری کی سندھ رجمنٹ سے ہے۔ ان کے ایک سابق افسر کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل رمدے بہت قابل اور ذہین آفیسر ہیں۔
وہ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ خلیل الرحمان رمدے کے قریبی عزیز ہیں جبکہ ان کے ایک رشتہ دار بریگیڈیئر انوار الحق رمدے دو ہزار نو میں جی ایچ کیو پر حملے میں شہید ہوئے تھے۔
اپنے خاندان کے سیاسی پس منظر کی وجہ سے کچھ لوگ انہیں مسلم لیگ (ن) کی ترجیح قرار دیتے ہیں، لیکن ان کے خاندان کے سیاسی تعلقات ان کی ترقی کے آڑے بھی آسکتے ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ بھی اس دوڑ میں شامل ہیں۔ وہ اس وقت جی ایچ کیو میں انسپکٹر جنرل ٹریننگ اینڈ اویلیوایشن کے عہدے پر تعینات ہیں۔ جنرل راحیل شریف بھی آرمی چیف بننے سے پہلے یہی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ آرمی کی سب سے بڑی ’دسویں کور‘ کی قیادت کر چکے ہیں جو کنٹرول لائن کے علاقے کی ذمہ دار ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل قمر باجوہ کو کشمیر اور فاٹا کے امور سنبھالنے میں خصوصی تجربہ ہے۔ بطور میجر جنرل انہوں نے فورس کمانڈ ناردرن ایریاز کی قیادت کی جبکہ لیفٹیننٹ کرنل کے طور پر بھی دسویں کور میں رہے۔
کشمیر بارڈر پر طویل تعیناتی کے باوجود وہ پاکستان کے لئے دہشت گردی کو بھارت سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل باجوہ نے کانگو میں اقوام متحدہ کے امن مشن میں سابق بھارتی آرمی چیف جنرل بکرم سنگھ کے ساتھ بریگیڈیئر کمانڈر کے طور پر بھی کام کیا ہے۔
وہ کوئٹہ میں انفنٹری سکول کے کمانڈنٹ بھی رہے، ان کے قریبی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ لائم لائٹ میں رہنے کے بجائے جوانوں کے ساتھ منسلک رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
جنرل باجوہ کو غیر سیاسی، پروٹوکول کا مخالف اور تعصب سے پاک جنرل قرار دیا جاتا ہے۔ ان کا تعلق انفنٹری کی بلوچ رجمنٹ سے ہے جس کے تین آفیسر ’جنرل یحییٰ خان، جنرل اسلم بیگ اور جنرل اشفاق پرویز کیانی‘ آرمی چیف بن چکے ہیں
بشکریہ ڈان