دہشت گردی ختم ہو گئی، قابو پا لیا گیا، دہشت گرد فرار ہو رہے ہیں، ایسے جملے سن سن کر تھک گیا ہوں، ہر بار لوگوں کو چیختے دھاڑتے دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے، ہر نیا واقعہ قوم کو خون رُلا دیتا ہے۔ کوئٹہ کے سول ہسپتال میں بم دھماکے میں بھی 70 قیمتی جانیں گئیں جبکہ 100 سے زائد افراد زخمی ہیں۔
حکومتی کارکردگی کی بیان بازی میں امن کی فاختہ اڑتی نظر آتی ہے لیکن ہر کچھ عرصے بعد صیاد حملہ کر کے بے چاری فاختہ کو لہولہان کر دیتا ہے لیکن اس کم بخت کو پھر زخمی حالت میں اڑایا جاتا ہے۔ وہ پھر اڑتی ہے اور پھر نشانہ بنتی ہے، بارہا دہشت گردوں کی کمر توڑنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے لیکن یہ ظالم دہشت گرد 2004 سے اب تک 60 ہزار پاکستانیوں کی جان لے چکے ہیں۔
شیخ جی کی بات پر ایمان لانے کا دل کرتا ہے کہ قوم تماش بین ہے، حالانکہ انہوں نے یہ جملہ بھی فلم سے چرایا تھا لیکن پھر بھی دل ہی ہے ۔ قوم دہشت گردی کی اب عادی ہو چکی ہے۔ دھماکے میں کیسے مرنا ہے۔ کتنا زخمی ہونا ہے۔ مرگئے تو کون شہید اور کون جاں بحق، پولیس والا مرے تو جاں بحق، فوجی مرے تو شہید، ٹائٹل کے ساتھ کیا امداد ملے گی؟ زخمی ہونے پر کتنے پیسوں کا اعلان ہوگا؟ رونا، چیخنا، چلانا، کراہنا کیسے ہے؟ ٹی وی سکرینوں پر واویلا کتنا کرنا ہے؟ فوری مذمت کون کون کرے گا؟ دہشت گردوں کو امن برباد کرنے کی بالکل بھی اجازت کون نہیں دے گا؟ عادت سی ہوگئی ہے۔
ہر دھماکے کے بعد نئے سرے سے دہشت گردوں سے جنگ لڑنے کا نیا ولولہ بھی پیدا ہوتا ہے یا پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کونے کھدروں میں چھپے دہشت گردوں کو نکالنے کے عزم دہرائے جاتے ہیں۔ چپے چپے کو امن دشمنوں سے پاک کرنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ پتہ نہیں کون سا ایسا سپرے ایجاد کیا گیا ہے جو چپہ چپہ اور کونا کونا صاف کرنے والا ہے؟
اچھا یہ بھی واقعے کی نوعیت پر منحصر ہے کہ الگ الگ انفرادی بیانات جاری کرکے کام پورا کیا جائے گا یا پھر تمام قیادت کا کوئی سر جوڑ اجلاس ہوگا۔ اب اس سر جوڑ بے جوڑ بے سر پیر کے اجلاس میں اور کچھ ہو نہ ہو، دہشت گردوں کو کہیں سر چھپانے کی جگہ نہیں ملتی۔ واقعے کی نوعیت پر ہی منحصر ہے کہ دہشت گردی کا نشانہ بننے والی جگہ کا دورہ کرنا ہے یا نہیں ، زخمیوں سے ملنا ہے یا نہیں، اگر ایسا کرنا ہے تو کون کرے گا؟ یہ مرنے والوں کی تعداد اور حیثیت پر بھی منحصر ہے۔
کوئٹہ کے سول اسپتال میں دھماکا ہوا تو یہی سب کچھ ہوا ہے۔ ماضی میں بھی ایسا ہوا۔ خدانخواستہ پھر کوئی سانحہ رونما ہوا تو مستقبل میں بھی شاید یہی دیکھنے کو ملے گا۔
مدت ہوئی دہشت گردوں کے نیٹ ورک ختم کرنے کے شادیانے بجائے جاچکے لیکن دہشت گردی کا عفریت ہر دفعہ پہلے سے زیادہ غضب ناکی دکھاتا ہے۔ مذہب، مسلک، رنگ، نسل، غیرت اور نہ جانے کیا کیا نام دے کر جان لینے کے بہانے تراشے جاتے ہیں یا جان لینے کے بعد تاویلیں گھڑی جاتی ہیں۔ ایک آدمی قتل ہوا یا سو لوگ جان سے گئے۔
کیا اس کا خون صرف گولی چلانے والے یا دھماکا کرنے والے کی گردن پر ہوگا؟ کیا ریاست اور اداروں پر شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کی کوئی ذمے داری نہیں؟ اگر کوئی دہشت گردی کا شکار ہے تو کیوں ہے اور اگر کوئی دہشت گرد ہے تو کیوں ہے؟ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ”سنجیدگی” سے کی جانے والی کوششوں کا کوئی نتیجہ کیوں نہیں نکلتا؟ اور جب ہر بار دہشت گردی میں بیرونی ہاتھ ہی ملوث ملتا ہے تو ہمارے ہاتھ صرف تالیاں بجانے اور مکے لہرانے کے لیے کیوں ہیں؟