دہشت گردوں نے کوئٹہ دھماکے کی منصوبہ بندی انتہائی مہارت سے کی۔ ابتدائی رپورٹس کے مطابق پہلے دہشت گردوں نے بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کو منوں جان روڈ پر گھر سے عدالت جاتے ہوئے فائرنگ کر کے ہلاک کیا۔
اس کے بعد وہاں وکلا بڑی تعداد میں جمع ہو گئے۔ ان کی میت کو سول اسپتال منتقل کیا گیا تو میڈیا ور وکلا وہاں موجود تھے۔ جیسے ہی میت مرکزی دروازے پر لائی گئی تو دھماکا ہوا۔ جس مں درجنوں لوگ جان کی بازی ہار گئے۔
صوبائی حکومت کے ترجمان کے مطابق دھماکے میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں وکلا اور میڈیا کے نمائندے بھی شامل ہیں۔
ہلاک ہونے والوں میں نجی ٹی وی چینل آج نیوز کے کیمرہ مین شہزاد یحییٰ بھی شامل ہیں۔
زخمیوں کو بولان میڈیکل کالج اور سی ایم ایچ بھی منتقل کیا گیا ہے ۔
30 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں جنھیں ایف سی ہسپتال، بی ایم سی اور سی ایم ایچ منتقل کر دیا گیا ہے۔
دھماکے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور شہر کے تمام اسپتال میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔
ترجمان بلوچستان حکومت انوار الحق کاکڑ نے سرکاری ٹی وی کو بتایا ہے کہ تاحال دھماکے کی نوعیت واضح نہیں ہے۔
وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف نے کوئٹہ میں دھماکے کی سخت مذمت کی ہے جبکہ بلوچستان کی صوبائی حکومت اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اس واقعے پر تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔
2009 میں بھی کوئٹہ کے سول اسپتال میں اسی مقام پر بھی ہزارہ قبیلے کے افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد وہاں جمع ہونے والے افراد پر خودکش حملہ ہوا تھا جس میں درجنوں افراد مارے گئے تھے۔