فرانس میں اسلام کی اصلاح

یاسر لوائٹی (الجزیرہ)

 

فرانس میں حملے کے بعد ایک بار پھر یورپ میں وسیع پیمانے پر ٹی وی لیکچر دے رہا ہے کہ مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے جو لوگ مبلغ بنے ہوئے ہیں انہیں اسلام اور مسلمانوں کے روزمرہ مسائل کا علم ہی نہیں۔

ان مبلغین میں ریاستی پشت پناہی کی حامل مسلمان اشرافیہ اور بین المذاہب  ہم آہنگی کے ایسے لوگ ہیں جو مسلسل اشتعال انگیزی کے علاوہ کچھ نہیں کر رہے۔ ایسے میں مسلمانوں کو لیکچر کیا برے اثرات مرتب نہیں کریں گے؟

بے شک بے زبان افراد کو لیکچر دینا انتہائی آسان کام ہے لیکن ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ اگر ہمارا لیکچر سننے والے لوگوں سے عملاً کوئی تعلق ہی نہیں تو پھر ہم انہیں کیوں لیکچر دے رہے ہیں۔

دکھ کی بات ہے کہ لیکچر دینے والے یہ لوگ اب تک یہ ثابت کرنے میں ناکام ہیں کہ درحقیقت یہی مسلمانوں کے نمائندے ہیں یا کسی بھی طور پر یہ ان سے منسلک ہیں۔ انہیں دیکھ کر تو شاید فرانسیسی لوگوں کو لگے کہ یہ صدیوں سے فرنچ ہیں۔ ان کا رہنا سہنا، بولنا، کسی بھی طور پر مسلمانوں کی طرح نہیں۔

ان لیکچروں میں اسلام اور دہشت گردوں کو جوڑا جا رہا ہے ، آپ کسی بھی طور پر عیسائیت اور عراق کی تباہی کو منسلک نہیں کر سکتے حالانکہ جارج بش نے بھی یہ سب عیسائیت کے نام پر ہی کیا تھا۔

فرانس میں گزشتہ 18ماہ میں ہونے والی قتل و غارت کسی مذہبی شخص نے نہیں بلکہ پاگلوں، منشیات فروشوں سمیت جرائم پیشہ افراد نے کی۔ ان لوگوں کا مذہب سے کوئی مستحکم رشتہ نہیں تھا۔ اچانک ان کے اندر کی ملامت جاگی اور انہوں نے ایک غلط راستہ اختیار کیا۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ مذہب کو جانتے ہی نہیں تھے۔

ہمارا تجربہ یہ ثابت کر رہا ہے کہ اسلام کی تبلیغ سے دور لوگ دہشت گردی کر رہے ہیں، مساجد اور تبلیغ میں شامل لوگ دہشت گردی کا شکار نہیں ہوتے بلکہ علیحدہ رہنے والے، مساجد سے دور لوگ ، آن لائن دنیا سے دہشت گرد بن رہے ہیں ۔ یعنی جو علاقے مسلم کمیونٹی سے دور ہیں وہاں دہشت گردی پنپ رہی ہے۔

فرانسیسی وزیراعظم مسلمان کمیونٹی کی اصلاح کے لئے شروع کیے گئے پروگرام کی آڑ میں انٹیلی جنس اور خارجہ پالیسی کی ناکامی کو چھپا رہے ہیں حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ ملک میں انصاف کا نظام تیزی سے تباہ ہو رہا ہے۔

1905 کی قانون سازی کے مطابق فرانسیسی حکومت کسی طرح بھی مذاہب کے معاملے میں مداخلت نہیں کر سکتی لیکن پھر بھی آج یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے اور قومی ٹی وی پر بیٹھ کر ایسی حرکات کا کوئی جواز نہیں۔

فرانس ایک سیکولر ملک ہے اور اسے کسی طور پر دوبارہ ایک غیرسیکولر ریاست بننے نہیں دیا جائے گا ۔ اس وجہ سے حکومت فوری طور پر مسلمانوں کے معاملات میں مداخلت بند کرے۔

ریاست کو یہ غیر قانونی کام بند کرانا ہو گا اور آئین کے مطابق مسلمانوں کو حاصل تمام آزادیاں مہیا کرنا ہوں گی۔

آج اس سیکولر ازم کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کی آزادی کو سلب کیا جا رہا ہے اور اس سب کو ریاست کی پشت پناہی حاصل ہے۔ اسلام کے خلاف ہونے والی قانون سازی یہ ثابت کر رہی ہے کہ نا صرف اس ملک میں اسلام بلکہ سیکولرازم کو بھی خطرہ لاحق ہے۔

ہمیں مسلمانوں کو خلائی مخلوق  قرار دینا بند کرنا ہو گا۔ اگر دینی تعلیم حاصل کرنے والے مسلمان طالب علموں کو تبلیغ کا کام سونپ دیا جائے تو وہ اسلام اور فرانس کو مزید قریب لانے میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ریاست کو ملک میں اسلامی مبلغین نامزد کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔

ریاست کو ان نام نہاد مبلغین کو مسلمانوں کی نمائندگی سے روکنا ہو گا کیونکہ صرف مسلمانوں والا نام رکھ لینے سے کوئی مسلمان نہیں بن جاتا۔ علاقائی میئرز کو مساجد کے معاملات میں مداخلت سے روکنا ہو گا کیونکہ یہ کوئی نو آبادیاتی دور نہیں ہے۔ اب بھی کئی علاقوں میں امام مسجد کا فیصلہ میئرز کر رہے ہیں۔ ہمیں مسلمانوں کو ان کے اختیارات واپس دینا ہوں گے کیونکہ یہ جمہوریت ان کی بھی ہے۔

مسلمانوں کو اپنی مساجد کا انتظام اور ان کی تعمیر کا اختیار منتقل کر دینا چاہیے۔ آخر ہم کیوں ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہےہیں۔

جب تک حکومت ان کے فیصلے کرتی رہے گی، تب تک تمام مسائل کی ذمہ دار بھی حکومت ہی ہو گی۔ اگر وزیراعظم واقعے ہی مسلمانوں سے تعلقات میں اصلاح کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اسلام کی اصلاح بند کرنا ہو گی۔

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: