دودھ مینگیاں ڈال کر کیوں؟

ایک پرانی کہاوت ہے کہ “بکری جب دودھ دیتی ہے تو مینگنیاں ڈال کر دیتی ہے”

کچھ ایسا ہی حکومت سندھ اور سندھ رینجرز کے درمیان ہے۔ 27 سال سے رینجرز کراچی میں تعینات ہے۔  رینجرز اختیارات پر سندھ حکومت اور وفاقی حکومت میں ایک بات پھر ٹھن گئی ہے۔  صوبائی حکومت رینجرز کو کراچی سے باہر اختیارات نہیں دینا چاہتی جبکہ وفاقی حکومت پورے سندھ کے لیے اختیارات کا مطالبہ کر رہی ہے۔ فیڈریشن اور صوبے میں ایک بار پھر آئینی اور قانونی جنگ شروع ہو گئی ہے جو ابھی تک بیانات تک محدود ہے۔ دیکھیں اس جنگ میں جیت کس کی ہوتی ہے۔ وفاقی یا صوبائی حکومت میں سے کون یہ جنگ جیتتا ہے؟

1989 میں سندھ رینجرز کو کراچی میں اس وقت کی پیپلزپارٹی کی وفاقی حکومت نے سیاسی تشدد کو کنٹرول کرنے کے لیے بلایا تھا۔ آج 27 سال بعد بھی حالات بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہی ہوئے ہیں۔ یہ سندھ رینجرز کی کارکردگی پر بہرحال ایک سوالیہ نشان ہے۔

حالیہ کچھ برسوں سے سندھ رینجرز کراچی میں  ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، لسانی اور فرقہ وارانہ تشدد اور اغوا برائے تاوان کی بڑھتی ہوئی  وارداتوں کے بعد سے   پولیس کے اختیارات بھی استعمال کر رہی ہے۔ اب بات بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ رینجرز نے کراچی میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے مرکزی قائدین کو گرفتار کرنا شروع کر دیا ہے جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی اور رینجرز کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر گئے ہیں اور اب پیپلز پارٹی کراچی سے بھی رینجرز کو “خدا حافظ” کہنا چاہتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک حالیہ بیان نئے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ سول اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنا کر امن و امان کی باگ دوڑ ان کے حوالے کی جائے گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نئی صوبائی قیادت اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے کیا عملی اقدامات کرتی ہے؟

 

رینجرز کے اختیارات کو محدود کرنے کے لیے سابق وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ نے اپنی سی کوشش ضرور کی تھی۔ اس وقت کے وزیر داخلہ سندھ سہیل انور سیال نے اسمبلی میں ایک بل پیش کیا جس میں رینجرز کو صوبائی محکموں میں بغیر اجازت چھاپے مارنے اور کسی بھی سیاسی شخصیت کو وزیراعلیٰ کی پیشگی منظوری کے بغیر گرفتاری سے روکنےکا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن وفاقی حکومت کے سامنے صوبائی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑ گئے اور رینجرز کو تمام اختیارات طوعاً و کرھاً دینے پڑے۔

اس وقت پاکستان کے مالیاتی و کاروباری مرکز اور منی پاکستان کراچی میں سیکیورٹی کے حوالے سے دو متوازی نظام چل رہے ہیں۔ ایک سندھ ینجرز   اور دوسرا سندھ پولیس۔

کراچی کے حالات کی ابتری میں اس متوازی نظام نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ کراچی پولیس کو عملاً مفلوج کر کے رینجرز کے اختیارات میں مسلسل توسیع کی گئی ہے۔ سندھ رینجرز کراچی کی حد تک تو لازم و ملزوم دکھائی دیتی ہے۔

کراچی میں سندھ پولیس کی حد تک دیکھیں تو لگتا ہے کہ جیسے سندھ حکومت نے پولیس کو  جان بوجھ کر غیر فعال بنا دیا ہے۔ لگتا ہے سندھ پولیس شُتر بے مہار کی طرح ہے جہاں جواب دہی کا کوئی کلچر ہی نہیں۔

جس کسی پولیس افسر کا دل کرتا ہے وہ کسی بھی شخص کو ملزم بنا کر میڈیا کے سامنے پیش کرتا ہے اور پھر کم از کم ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کی درجنوں وارداتیں اس کے کھاتے میں ڈال کر صوبائی حکومت سے داد تحسین حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح ذاتی تسکین اور عوامی ردعمل سے بچنے کے لیے پولیس افسر پچھلے کئی سال سے یہی طریقہ اختیار کر رہے ہیں۔

پیپلزپارٹی کی حکومت کو کبھی اس بات سے دلچسپی نہیں رہی کہ وہ کسی بھی پولیس افسر کو طلب کرکے پوچھے کہ جس شخص کو ملزم بنا کر اور اس کے کھاتے میں درجنوں افراد کی ٹارگٹ کلنگ ڈالی گئی ہیں، اس کے ثبوت کہاں ہیں؟ پورے ملک میں یہ کلچر کراچی پولیس نے ہی متعارف کروایا ہے کہ وہ ایک پریس کانفرنس  میں کسی بھی شخص کو ملزم بنا کر اسی وقت سارے فیصلے سنا دیتی ہے اور جب عدم ثبوت کی بناء پر عدالتیں اس ملزم نما شخص کو رہا کر دیتی ہیں تو بجائے اس کے کہ صوبائی حکومت اور محکمہ داخلہ پولیس افسروں کی سرزنش کرے کہ تم نے میڈیا کے سامنے جس شخص کو ملزم بنا کر پیش کیا اور اس کے کھاتے میں درجنوں وارداتیں بھی ڈال دیں اس کے ثبوت عدالت میں پیش کیوں نہیں کیے، سیاسی قیادت نے تمام الزامات اور برائیوں کی جڑ عدلیہ کو قرار دیا اور بیانات دیتے ہیں کہ عدلیہ مجرموں کو رہا کر رہی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ پولیس نے جس شخص کو ایک پریس کانفرنس میں درجنوں واداتوں کا مرکزی ملزم قرار دیا اور اس کے خلاف ثبوت بھی پیش کیے ہوں تو عدالت کیسے ایک ملزم کو رہا کر سکتی ہے؟

کراچی میں پولیس اور رینجرز دونوں ہی صوبائی حکومت کے کنٹرول سے باہر دکھائی دیتے ہیں۔  رینجرز بھی اب تک درجنوں افراد کو گرفتار کر کے ان کے خلاف بے شمار مقدمے درج کر چکی ہے لیکن یہاں بھی کراچی پولیس والا معاملہ ہی ہے۔

سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دور سے شروع ہوئے “کراچی بدامنی کیس” کی سماعت کراچی میں ہونے والے کسی بھی بڑے واقعے کے بعد ہوتی ہے۔  چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس سجاد علی شاہ  کے صاحبزادے کے دن دیہاڑے اغواء اور امجد صابری کے قتل کے بعد کراچی بدامنی کیس کی سماعت ہوئی۔ سندھ  رینجرز اور پولیس نے روایتی طور پر عدالت عظمٰی کے سامنے وہی موقف پیش کیا کہ اب تک کتنا اسلحہ پکڑا گیا، کتنے ٹارگٹ کلرز، بھتہ خور، سٹریٹ کرمنل گرفتار کیے؟۔ کتنے کیسز عدالت میں بھجوائے۔ اور بس اللہ اللہ خیر صلےٰ۔

عدالت عظمٰی بھی سندھ حکومت کی طرح کسی سے یہ نہیں پوچھتی کہ بھائی جو کیس عدالت میں بھیجے ہیں، ان کے خلاف کس قدر ٹھوس ثبوت فراہم کیے گئے ہیں؟۔

ملک کے چاروں صوبوں میں پولیس میں سیاسی اثر و رسوخ اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ پولیس کی انتہائی ناقص کارکردگی پر کوئی سوال نہیں کرتا کیوں کہ ہر ایم پی اے اور ایم این اے کو اپنے علاقے میں اپنا من پسند پولیس افسر چاہیئے۔ لیکن کراچی پولیس تمام حدوں کو پھلانگ کر صرف میڈیا میں اپنی عدالت لگا کر کسی بھی شخص کو ملزم سے مجرم بنا دیتے ہیں۔

دنیا بھر میں کسی بھی ملک کی پولیس اس قدر پریس کانفرنسز نہیں کرتی ہے  جس قدر کراچی پولیس  کرتی ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ سندھ حکومت ہوش کے ناخن لے  اور سندھ پولیس کو پیشہ وارانہ طور پر اس کی کارکردگی بہتر بنائے۔ پولیس اصلاحات کے تحت سب سے پہلے سیاسی اثر و رسوخ کو ختم کرنا ہو گا۔ دوسری طرف پولیس کو جواب دہ بنانا ہوگا۔ صرف میڈیا میں اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے روز روز کی پریس کانفرنسز پر پابندی عائد کی جائے اور کسی شخص کے کھاتے میں درجنوں وارداتیں ڈال کر اسے ملزم بنا کر پیش کرنے والے افسروں سے پوچھ گچھ کی جائے کہ جو ثبوت میڈیا میں پیش کیے گئے وہ عدالت کے سامنے کیوں نہیں لا سکے۔

 

تعارف: آصف علی خان سینئر صحافی ہیں، جنگ گروپ جیسے بڑے اداروں میں کام کرچکے ہیں اور ان دنوں دنیا نیوز کے سنٹرل اسائنمنٹ ایڈیٹر کے طور پر فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ آصف علی خان ملک کے سیاسی اور کاروباری معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: