فلپائن میں منیلا کی جیل کو دیکھ کر احساس نہیں ہوتا کہ اس کے اندر زندگی اتنی بدترین ہو گی۔ کیوزین سٹی جیل کو 800افراد کے لئے بنایا گیا تھا لیکن اس میں 4000افراد کے لگ بھگ افراد موجود ہیں۔ ان لوگوں کی زندگی شاید حشرات الارض سے مختلف نہیں۔ ہر ایک کے جسم پر بیماریوں کے نشانات ہیں، کھانے میں کاکروچ اور کیڑے مکوڑے بھی ملے ہوتے ہیں۔
نکاسی آب کے بدترین حالات کی وجہ سے شاید ہی کوئی عام شخص چند سیکنڈ سے زیادہ نہ گزار سکے۔ یہاں 20افراد کے کمرے میں 200افراد موجود ہیں۔
کوئی باسکٹ بال کورٹ میں سوتا ہے تو کوئی سیڑھیوں کے نیچے۔باتھ روم میں جگہ مل جائے تو لوگ وہاں بھی سونے کو ترجیح دیتے ہیں۔
اس جیل کی کہانی ’’فریڈم اینڈ ڈیٹھ انسائیڈ دی جیل‘‘ کے مصنف نے بیان کی ہے۔ جناب نارنگ بھی اس جیل میں رہ چکے ہیں۔ ان پر ایک شخص کے قتل کا الزام تھا حالانکہ انہوں نے یہ نہیں کیا تھا پھر ان کی کئی برسوں بعد بے گناہی ثابت ہوئی وہ باہر نکلے ، امریکا جا کر قانون کی تعلیم حاصل کی اور پھر واپس آ کر اپنے ملک میں قانون کا تحفظ کرنے لگے۔ انہو ں نے اس جیل کی جو کہانیاں بیان کی ، وہ ناقابل یقین ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہاں صرف ایک ہی قانون ہے، جو طاقتور ہے وہی زندہ بچے گا۔ وہاں کھانے سے لے کر سونے کی جگہ لینے تک لڑائی ہوتی ہے۔
طاقتور لوگ دوسروں کو گھٹن میں سونے پر مجبور کرتے ہیں جس کی وجہ سے اکثر قیدی ہارٹ اٹیک کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پھر معصوم قیدیوں کی عصمت دری ہوتی ہے وہ بھی سب کے سامنے کیونکہ وہاں جگہ ہی نہیں ہے۔ اس وجہ سے جو بھی ہوتا ہے سب کے سامنے ہوتا ہے۔
نارنگ کے مطابق اب وہ اس جیل کو بند کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ وہاں سے نکلنے والا ہر قیدی کسی نہ کسی بدترین بیماری کا شکار ہو کر نکل رہا ہے۔اگر حکومت نے اسے بند نہ کیا تو یہ بیماریوں طاعون بن کر پورے علاقے کو تباہ کر دےگا۔