نیلم
مسیحا مٹی کے بےزبان دیکھے ہیں
ہم نے كھوٹے سکے مہان دیکھے ہیں
اونچی دکان پر سیاست کی
ہم نے پھیکے پکوان دیکھے ہیں
ان ہوائی قلعوں کے پھیرے نئے نہیں
ہم نے پہلے بھی تیرے طلسمي جہان دیکھے ہیں
قرض اپنوں کے کوئی گنے کیسے
ہم نے سانسوں پر لگان دیکھے ہیں
اب تباہی سے ڈر نہیں لگتا
ہم نے جلاتے مکان دیکھے ہیں
زندگی ڈر رہی تھی جینے سے
ہم نے وہ بھی مقام دیکھے ہیں
رہنما سازشوں میں شامل تھے
ہم نے انگلیوں کے نشان دیکھے ہیں
گونگے گواہ اور موم کے منسپھ(ایسا انسام جس کامنہ بند ہے)
ہم نے ٹوٹتے آئین دیکھے ہیں
نظر چراتے ہیں سچ سے آئینہ اب
ہم نے ہو کے روبرو تمام دیکھے ہیں
ہر نشانے پر رہی پرواز آپ کی
ہم نے سب تیر کمان دیکھے ہیں
گرتی مساجد اور ٹوٹتے ہیکل
ہم نے وہ مذہبی فرمان دیکھے ہیں
سوکھتے برگد امن کے آنگن میں
ہم نے کل ہی تو جوان دیکھے ہیں
سلگتے سوالوں کی سليبو پر
ہم نے ملک کے امتحان دیکھے ہیں
یہ اداسی کیسی آ ذرا یاد کریں
ہم نے صدیوں جنگی اعلان دیکھے ہیں