کیا انتخابات ہو بھی سکیں گے؟؟

پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کے کندھوں پر یہ بھاری ذمہ داری ہے ۔اگر وہ جمہوریت کو پٹڑی سے اترتا نہیں دیکھنا چاہتیں تو ان کے پاس فیصلے کیلئے 5 دن ہیں کہ آیا وہ قبل از وقت انتخابات چاہتی ہیں یا اپنے وقت پر انتخابی عمل کی خواہاں ہیں،اس کا فیصلہ کرلیں۔
اس معاملے میں عدم اتفاق رائے کا نتیجہ انتخابات میں تاخیر یا اس کے التواء کی صورت میں نکل سکتا ہے ۔ الیکشن کمیشن نے حکومت اور پارلیمنٹ کو فیصلہ کرنے کیلئے 10 نومبر کی ڈیڈ لائن دی ہے ۔ یقیناً اب گیند پارلیمنٹ کی کورٹ میں ہے ۔ اب جبکہ سیاسی جماعتیں جلسے، جلوسوں اور احتجاج میں مصروف ہیں، اس وقت نظام کو بچانے کیلئے سنجیدگی سے کام اور سوچ بچار کی ضرورت ہے ۔
لگتا ہے اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق اور چیئرمین سینیٹ رضا ربانی اپنی آخری کوششوں کے طور پر سسٹم کو بچانے کی سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ انتخابی عمل میں تاخیر جمہوریت کی نفی ہوگی حتیٰ کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں موسم بھی قبل از وقت انتخابات کی اجازت نہیں دیتا ۔
جو بات لمحہ فکریہ ہے وہ یہ کہ ملک میں نظریاتی کی جگہ کاروباری سیاست نے لے لی ہے ۔ سیاست دان اب ثابت کر رہے ہیں کہ ان میں معمولی ایشوز سے نمٹنے کی بھی صلاحیت نہیں ہے ، کچھ قبل از وقت انتخابات کے خواہاں ہیں جبکہ دیگر ایسی صورتحال پیدا کرنا چاہتے ہیں ، انتخابی عمل میں تاخیر یا التواء سے ریلیف مل جائے، انہیں اس حقیقت کا ادراک نہیں کہ درحقیقت یہ عارضی ریلیف ’’ مستقل ریلیف ‘‘ میں تبدیل ہو جائے گا ۔اگر سیاسی جماعتوں کے درمیان آئینی ترمیم پر اتفاق رائے نہ ہوا تو حلقہ بندیاں نہیں ہو سکیں گی ۔
ہ بات خود مسلم لیگ ن کے مفاد میں ہے کہ وہ 1998کی مردم شماری کے تحت ہی عام انتخابات کے انعقاد پر راضی ہو جائے۔کسی قانونی رکاوٹ کی صورت سیاسی جماعتیں سپریم کورٹ سے رجوع کر سکتی ہیں۔ یہ درست ہے کہ 2002, 2008 اور 2013 کے گزشتہ تین انتخابات 1998 کی مردم شماری کی بنیاد پر ہوئے۔ اس دوران بروقت مردم شماری نہ کرانے کے ذمہ دار سابق صدور پرویز مشرف ، آصف زرداری اور سابق وزیراعظم نواز شریف بھی ہیں۔
مسلم لیگ ن اس صورتحال سے بچ سکتی تھی اگر وہ برسر اقتدار آنے کے فوری بعد مردم شماری کرا دیتی۔ اسی طرح اپوزیشن پارٹیاں تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی اسے قومی ایشو کے طور پر اٹھانے میں ناکام رہیں لہٰذا یہ وقت قبل از وقت انتخابات کیلئے مہم چلانے کا نہیں بلکہ پارلیمانی پارٹیوں کو چاہئے کہ وہ انتخابات اور منتقلی اقتدار کو یقینی بنانے کیلئے سنجیدگی سے کام کریں۔
انتخابی اصلاحات لانے میں وہ پہلے ہی بہت وقت لے چکیں۔ آج جیسا کہ صورتحال ہے تینوں بڑی سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنمائوں کے مختلف ایجنڈے ہیں، مثال کے طور پر نواز شریف جنہیں سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا انہیں احتساب عدالت میں نیب کے تحت مقدمات کا سامنا ہے ۔ ان کیلئے قبل از وقت انتخابات کے حوصلہ شکن نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
دوسرے اس انتخابی مشق کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) مارچ 2018 میں سینیٹ انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کا موقع گنوا سکتی ہے ۔ لہٰذا نواز شریف چاہتے ہیں کہ حکومت 5 جون 2018 کو اپنی معیاد پوری کرے اور پھر اگست میں انتخابات کیلئے جایا جائے۔
نواز شریف کا انتخابی مستقبل غیر یقینی ہے لہٰٰذا 1998 کی مردم شماری کے تحت انتخابات سے ان کو نقصان نہیں ہوگا۔ اس بحث کا کوئی فائدہ نہیں کہ انتخابات 1998 یا 2017 کی مردم شماری کے تحت ہوں۔
دوسری جانب قبل از وقت انتخابات سے عمران خان کی تحریک انصاف کو واضح طور پر سبقت مل جائے گی ۔ آئندہ عام انتخابات میں اپنی ممکنہ کامیابی کو محسوس کرتے ہوئے عمران خان نے پیشگی انتخابی مہم شروع کر دی ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: