بھارت میں جہاں معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے وہیں غریب طبقے کی تعداد میں کمی نہیں آئی اور غربت دور کرنے کے لئے جسم فروشی کا سہارا لیا جا رہا ہے۔
دنیا بھر میں غلامی کی زندگی بسر کرنے والے افراد کے لئے کام کرنے والے ادارے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن نے بھارت میں سروے کیا جس میں ہوشربا انکشافات سامنے آئے۔
سروے کے مطابق بھارت میں 20 لاکھ کے قریب سیکس ورکرز ہیں جن میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے۔ یہ تعداد 16 لاکھ ہے اور اس میں بیشتر 15 سے 35 سال کی درمیانی عمر کی لڑکیاں ہیں۔
تقریباً تمام بھارتی شہروں میں خفیہ طور پر جسم فروشی کے اڈے قائم کئے گئے ہیں جہاں ان لڑکیوں کو دھوکے سے یا پھر ان کی غربت کا فائدہ اٹھا کر لایا جاتا ہے۔
ایسے ہی ایک قحبہ خانے سے رہائی پانے والی 29 سالہ تاوی ہیں جنہیں ایک قحبہ خانے پر پولیس ریڈ کے بعد رہائی ملی۔ تاوی نے بھارتی وزیر اعظم کے نام خط سے میڈیا میں جگہ بنائی۔
تاوی نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا کہ جب وہ صرف سترہ برس کی تھی تو اسے دھوکہ دے کر ممبئی کے ایک قحبہ خانے یا جسم فروشی کے ایک اڈے میں فروخت کر دیا گیا تھا۔
تاوی کا یہ خط بھارت کے کئی اخبارات میں شہ سرخی بنا۔ جنوبی ایشیا کے اس ملک میں غلامی کی زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔
تاوی نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا، میری مدد کی گئی، مجھے بچا لیا گیا، وہاں میری طرح کی بہت زیادہ لڑکیاں تھیں۔ میں نے دیکھا کہ وہ وہیں تھیں وہ نہ بھاگیں نہ انہیں بچایا گیا۔
تھامسن کے مطابق بھارت میں سیکس ورکرز 90 فیصد کے قریب لڑکیاں ہیں جب کہ 3 لاکھ کے قریب خواجہ سرا بھی اس دھندے میں شالم ہیں۔
سیکس ورکرز میں ایسے لڑکے بھی شامل ہیں جو خواجہ سراؤں کا روپ دھار کر یا پھر ہم جنس پرست مردوں کے لئے کام کرتے ہیں۔
تاوی کا کہنا ہے کہ کہ یہ لڑکیاں بے روزگار ہیں، ان کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ لوگ انہیں ممبئی میں کام دلانے کا جھانسا دیتے ہیں اور پھر جسم فروشوں کو یہ لڑکیاں فروخت کر دیتے ہیں۔
تاوی کا کہنا ہے کہ اس نے بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط میں لکھا ہے کہ ان لڑکیوں کو رہا کرا کر روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں۔