وزیراعظم نے یو اے ای میں نوکری اور تنخواہ کا اعتراف کرلیا

وزیراعظم نوازشریف نے ازخودسپریم کورٹ کے سامنے تحریری طور پر تسلیم کیاہے کہ انھوں نے نہ صرف یواے ای کی آف شورکمپنی کیپیٹل ایف زیڈای میں نوکری کی بلکہ اقامہ بھی حاصل کیا تاہم اس خطرناک انکشاف کی عکاسی2013ء میں جمع کرائے گئے کاغذات نامزدگی میں بھی ہوتی ہے۔اپنے وکیلوں خواجہ حارث اور امجد پرویز کی جانب سے ہفتے کوحقائق اورذرائع چھپانے کے برعکس اثاثوں سے متعلق جے آئی ٹی کی رپورٹ کے حوالے سے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے تحریری جواب میں وزیراعظم نے اس الزام کو مسترد کردیا کہ انھوں کیپیٹل ایف زیڈای میں نوکری کو چھپایا ہے۔
سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے تحریری جواب میں کہا گیاہے کہ اقامہ اورکیپیٹل ایف زیڈ ای میں ملازمت کاحوالہ انکی پاسپورٹ کی نقول کے ساتھ موجودہے جو عام انتخابات2013 ء کیلئے جمع کرائے گئے کاغذات نامزدگی کے ساتھ منسلک ہے۔آخری روز خواجہ حارث نے 3 رکنی بینچ سے درخواست کی تھی کہ انھیں وزیر اعظم کیخلاف جے آئی ٹی کی رپورٹ کاتحریری جواب داخل کرانے کی اجازت دی جائے۔
25 صفحات پرمشتمل جواب کی نقل میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم نے اپنے تازہ جواب میں سپریم کورٹ کوبتایا کہ ان کا بیٹا حسین نواز کیپیٹل ایف زیڈ ای کا ڈائریکٹر، سیکریٹری اور دستاویزات پردستخط کرنے کا مجاز ہے، وہ اس کمپنی کے حصص میں نہ شراکت دار رہے اورنہ ہی ڈائریکٹریا سیکریٹری جبکہ نہ ہی انھوں نے کبھی کسی دستاویز پر دستخط کیے اورنہ ہی کبھی 10 ہزار درہم تنخواہ نہیں لی۔بورڈ کے چیئرمین کے عہدے سے متعلق وضاحت دیتے ہوئے وزیراعظم نے سپریم کورٹ کو بتایا 2007 ء میں اس وقت ایک رسمی دفتر لیا گیا جب وہ جلا وطن تھے جبکہ نہ تو وہ کمپنی چلا رہے تھے اور نہ ہی وہ امور کے نگران تھے ۔ جواب میں مزید کہا گیا یہ رسمی عہدہ کیپیٹل ایف زیڈ ای کی تحلیل کے عمل کے ساتھ ہی ختم ہو گیا، یہ عمل جولائی 2013 ء میں شروع ہوا اور جولائی 2014 ء میں ختم ہوا۔ جنوری 2013 ء میں حسن نواز نے کمپنی ختم کرنے کے فیصلے سے آگاہ کیا تو وزیراعظم نے اسے واضح طو ر پر کہا کہ وہ کمپنی سے کسی قسم کی تنخواہ لینے کا ارادہ دعویٰ نہیں کرینگے۔
وزیراعظم نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ اقامہ کا معاملہ تین سال کے عرصے کیلئے رہا اور یہ 2012 ء میں ختم ہو گیا تاہم کیپیٹل ایف زیڈ ای کی تحلیل کے ساتھ 2012 ء کا اقامہ 2014 ء میں ختم ہو گیا۔ وزیراعظم نے سپریم کورٹ کو یہ بھی بتایا کہ انہوں نے جے آئی ٹی کی جانب سے پیش کئے گئے کیپیٹل ایف زیڈ ای سے متعلق دستاویزات سے کبھی انکار نہیں کیا کیونکہ اگر وہ دستاویزات ان کے علم میں لائی جاتیں تو وہ جے آئی ٹی کو اپنی پوزیشن بیان کر دیتے ۔
یاد رہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے جواب میں وزیراعظم کا تحریری جواب ان کے وکیلوں خواجہ حارث اور امجد پرویز نے سپریم کورٹ میں جمع کرایا تھا۔ ادھر آئی این پی کے مطابق وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا ہے کہ قانونی معاملات مفروضوں پر طے نہیں ہوتے ، 50 سال کے کاروباری معاملات کی تفصیلات پیش کرنا ممکن نہیں، جے آئی ٹی کے پاس تمام مواد موجود تھا جسے انہوں نے نظر انداز کیا، آدھا مواد سفید کاغذ پر لکھا گیا جو بغیر تصدیق شدہ تھا، نجی ٹی وی سے گفتگو میں انکا کہنا تھا کہ وزیراعظم کو دبئی کمپنی کا اعزازی طور پر چیئرمین بنایا گیا، آف شور کمپنی اور امارات میں نوکری پر نا اہلی نہیں ہو سکتی ، وزیراعظم کمپنی کے چیئرمین رہے پھر وہ کمپنی بھی ختم ہو گئی، اس بنیاد پر اگر سپریم کورٹ نااہل قرار دے گی تو معاملہ دور تک جائے گا، والیم 10 میں کچھ نہیں صرف جے آئی ٹی کی درخواستیں تھیں جو انہوں نے مختلف ممالک کو بھیجیں ، جواب نہیں آیا ، والیم 10 پر ہمارے موکل کو تشویش نہیں ۔
پاناما کیس کا حتمی فیصلہ دو، ایک سے ہو گا، 20 اپریل کا فیصلہ عبوری نہیں تھا ، 5 رکنی بنچ کافیصلہ ختم ہوا، اب 3 رکنی بنچ کا فیصلہ حتمی ہو گا، اس بنچ نے وزیراعظم کو طلب کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ ثابت کچھ بھی نہیں ہوا ، حتمی فیصلے کا انتظار ہے ، سپریم کورٹ حتمی فیصلہ نہیں دے گا، معاملہ آگے چلے گا، ادھر آن لائن کے مطابق ملکی تاریخ کے اہم ترین پاناما لیکس کیس کی 273 دن میں 50 سماعت کی گئیں، 150 گھنٹے سنا گیا، سماعت کے دوران عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید سب سے زیادہ 101 گھنٹوں تک کمرہ عدالت میں موجو د رہے ۔ دوسرے نمبر پر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ہیں جو 93 گھنٹے اور تیسرے نمبر پر وزیراعظم کے خصوصی معاون برائے قانون و انصاف ظفر اللہ خان ہیں جو 87 گھنٹوں تک کمرہ عدالت میں موجود رہے ۔


میڈیا رپورٹس کے مطابق پاناما لیکس کے تاریخی کیس میں تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے خصوصی دلچسپی لی اور سپریم کورٹ کے چکر لگاتے رہے، ان میں پی ٹی آئی کے شاہ محمود قریشی اورجہانگیر ترین بھی شامل ہیں جو بالترتیب 69 اور 80 گھنٹوں تک کورٹ روم نمبر 2 میں موجود رہے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق 86 گھنٹے، ن لیگ کے خواجہ آصف 8 گھنٹے، خواجہ سعد رفیق 13 گھنٹے ، مریم اورنگزیب 75 گھنٹے اور انوشہ رحمان 65 گھنٹے تک کمرہ عدالت میں موجود رہیں۔ اس اہم کیس میں عدالت کے روبرو 14 ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل دستاویزات پیش کی گئیں ۔ وزیراعظم نواز شریف کی تقاریر کو 111 مرتبہ پڑھا گیا۔ قطری خطوط اور قطری شہزادے کا 131 مرتبہ ذکر کیا گیا اور مجموعی طور پر 307 میں سے 170 سوالات معزز جج صاحبان کی جانب سے پوچھے گئے۔ 273 دنوں تک 50 جاری رہنے والے اس کیس میں جمعہ 21 جولائی کو دلائل مکمل اور فیصلہ محفو ظ کیا گیا۔ سپریم کورٹ نے سماعتوں کے دوران 150 گھنٹوں تک سماعت کی۔
واجد ضیا کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے 60 دن میں تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ سپریم کوٹ میں پیش کی۔ سماعت کے دوران دونوں پارٹیوں کے وکلا نے 315 مقدمات اور امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا، بھارت ، بنگلہ دیش سمیت 36 ممالک میں عدالتی فیصلوں کے حوالے دیئے۔ وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے 5 مخدوم علی خان نے 17 جبکہ پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری نے 21 گھنٹوں تک دلائل دیئے۔ عدالت میں بطور حوالہ 6 کتابیں بھی پیش کی گئیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: