تجربہ کار اناڑی

تحریر:محمد علی میو

کائنات بننے سے پہلے اور اس کے بعد بھی عزت ،بڑائی اور لازوال ہونا صرف اللہ کی ذات سے منسوب ہے ۔باقی ہر مخلوق کو عرو ج کے بعد زوال ہے۔ایک کہاوت ہے
ALL is well if the End is Well یعنی اگر اختتام اچھا ہو جائے تو پھر سب ہی اچھا ہے ۔غلطی انسانی جبلت ہے ۔غلطی تو دنیا کے سب سے پہلے انسان سے بھی ہوئی تھی ۔ جسے سزا میں جنت سے بے دخلی اور دنیا میں حکمرانی ملی ۔جو ہر موڑ پر کسی نہ کسی امتحان سے مشروط ٹھہری ۔ یہی عمل تاقیامت نسل آٓدم کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے ۔ کوئی بھی مخلوق غلطی سے پاک نہیں ۔آدم نے غلطی کی اور معافی مانگ کر اشرف المخلوقات بنا ۔ شیطان نے غلطی کی اور اس پر ڈٹا رہا اور عذاب الہی کا حق دار ٹھہرا۔تو نچوڑ یہ ہے کہ غلطی کے بعد دوبارہ غلطی نہ کرنا ہی شیوہ عقلمندی ہے ۔ کسی سے پوچھا کہ آپ نے عقل کس سے سیکھی جواب ملا بیوقوفوں سے،جو کام بیوقوف کرتے ہیں وہ میں نہیں کرتا ۔ اتنی لمبی چوڑی تمہید کا مقصد صرف ایک ہی شخصیت کی سیاسی زندگی کا احاطہ کرنا ہے جو بارہا مختلف کوتاہیوں کے باوجود اپنے ہی کھودے ہوئے گڑھوں سے نکلنے میں کامیاب رہا ۔

میاں محمد نوازشریف جو دو بار وزیراعلیٰ پنجاب اور تین بار وزیراعظم پاکستان کے عہدے پر فائز رہے ہیں ۔تقریبا 35سال سے کسی نہ کسی شکل میں ملکی سیاسی منظر نامے پر اہم مقام پر رہے ہیں ۔ نواز شریف نے سیاسی کیرئیر میں متعدد اتار چڑھاو دیکھے ۔اور ان میں کسی نہ کسی طرح سرخرو بھی رہے ۔ لیکن ان تمام اتار چڑھاؤ میں ایک بات مشترک تھی کہ انہوں نے امتحان میں سرخرو ہوتے ہی اس سے گزرنے والے مرحلے سے سبق نہیں سیکھا اور فورا بھلا دیا ۔

انیس سو نوے کی دہائی میں آئی جے آئی کے پلیٹ فارم سے پہلی بار وزیراعظم منتخب ہوئے اور ڈیڑھ سال میں ہی اسمبلی تحلیل کرا بیٹھے ۔انہوں نے صدر مملکت اور مسلح افواج سے تعلقات اچھے بنانے پر توجہ نہ دی ۔ بلکہ کئی معاملات میں ان کے اختیارات چیلنج بھی کیے ۔جس کے نتیجے میں ان کو اقتدار سے رخصت ہونا پڑا ۔ ان پر کرپشن کے کیسز بنے ۔مگر قسمت کی دیوی مہربان رہی اور ان پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔

انیس سو ستانوے کے الیکشن ہوئے اور کسی بھی سیاسی جماعت نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار دو تہائی اکثریت حاصل کی ۔ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف دوسری بار ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے۔انہوں نے پچھلے دور اقتدار سے سبق حاصل نہیں کیا ۔اور دوتہائی اکثریت کا خمار ان پر سوار رہا ۔آئین میں من چاہی ترامیم کیں ۔فوج اور عدلیہ سے محاذ آرائی کی اور ماضی سے بھی زیادہ تلخ تعلقات رہے ۔انہوں نے آرمی چیف کو جبری رخصت کیا ۔ آئین کے ذریعے سپریم کورٹ کے ججز کے اختیارات کو محدود کرنے کی کوشش کی اور متعدد ایسے اقدامات کیے جو کسی بھی لحاظ سے کسی اور سیاسی جماعت کیلئے ناقابل قبول تھے ۔ایسے میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف نے ان کے اقتدار کا خاتمہ کیا ۔

شریف برادران پر حدیبیہ پیپرز ملز اور طیارہ سازش کیس سمیت درجنوں مقدمات بنائے گئے ۔دوتہائی اکثریت والے وزیراعظم کے تمام ساتھی ان کو چھوڑ گئے ۔ ان کی بیگم کلثوم نواز اور والد محمد شریف نے دوست ممالک کے حکمرانوں سے مداخلت کی اپیل کی ۔قسمت کی دیوی پھر سے اٹک جیل آئی اور شریف خاندان کو اڑا کر سعودی عرب لے گئی ۔اور نواز شریف سات سال وہاں مقیم رہے ۔

شریف خاندان خاموشی سے دس سالہ ڈیل کے تحت سعودی عرب میں اپنی زندگی گزار رہا تھا ۔ اس بار قسمت کی دیوی بے نظیر بھٹو کی صورت میں مہربان ہوئی ۔ بے نظیر بھٹو نے حکمران پرویز مشرف کے خلاف تحریک کی کمان سنبھالی اور دباؤ بڑھا یا ۔ جیسے جیسے تحریک مقبول ہونے لگی اور پرویز مشرف پر دباؤ بڑھتا گیا ۔تو میاں نواز شریف بھی بن بلائی بارات میں باراتی بن گئے ۔اور انہوں نے بھی مشرف کیخلاف تحریک میں شمولیت کر لی اور دس کی بجائے سات ہی سال میں دوبارہ پاکستان لوٹ آئے ۔

دو ہزار آٹھ کے الیکشن میں مسلم لیگ ن پہلے حکومت اور پھر اپوزیشن کا حصہ رہی ۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سب کی نظریں ایک بار پھر نواز شریف پر مرکوز ہو گئیں ۔کیونکہ ان کے علاوہ کوئی بھی عوامی مقبولیت کا حامل لیڈر پورے ملک میں نہیں تھا ۔ دو ہزار تیرہ کے الیکشن ہوئے ۔قسمت کا ہما ایک بار ایک بار پھر نواز شریف کے سر بیٹھا ۔وہ تیسری بار پاکستان کا وزیراعظم بننے والی پہلی شخصیت ہوئے۔

اس بار سیاسی پنڈتوں کا خیال تھا کہ تمام تر تجربات کی بنیاد پر نواز شریف اس بار ایک سنجیدہ اور قومی لیڈر کا کردار ادا کرینگے ۔مگر اقتدار کے ملتے ہی ان کی ترجیحات تبدیل ہوئیں ۔ ایک بار پھر کئی قریبی ساتھی دلبرداشتہ ہو کر ساتھ چھوڑ گئے ۔نادان دوستوں سے مشاورت ترجیح بنی رہی ۔مشکل وقت میں ساتھ نبھانے والے ساتھی نظر انداز کر دیے ۔کئی غیر مقبول فیصلے کیے ۔ اس بار بھی فوج سے تعلق کچھ زیادہ بہتر نہیں رہے ۔ فوج کے متعدد معاملات میں اثر انداز ہونے کی کوشش کی ۔اپوزیشن جماعتوں اور جمہوری اقدار کو بھی بری طرح نظر انداز کیا گیا ۔

ماڈل ٹاؤن لاہور میں پولیس کےہاتھوں عوامی تحریک کے درجنوں کارکن قتل ہوئے ۔سیکڑوں زخمی ہوئے ۔پوری قوم سراپا احتجا ج بنی ۔مگر نواز شریف ٹس سے مس نہ ہوئے ۔اور استعفیٰ نہ دیا ۔عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف اور طاہر القادری کی قیادت میں عوامی تحریک نے دھرنا دیا ۔نواز شریف پر استعفیٰ کیلئے دباوحد سے زیادہ بڑھ گیا ۔ لیکن اقتدار کا ہما ان کے سر سے نہ ہٹا ۔

ایک انگریزی اخبار میں ایک بڑے معزز اور قابل احترام ادارے کیخلاف متنازع خبر لگی ۔جس کی ذمہ دار حکومت ٹھہری ۔نواز شریف پر استعفیٰ کا دباؤ بڑھا ۔ انہوں نے اپنے مشیر اور وزیر کی قربانی دی ۔اور اصل کردار کو بچالیا ۔ وقتی طور پر ایک بار پھر قسمت کی دیوی نے نواز شریف کو مشکل سے نکال لیا ۔لیکن سیاسی پنڈتوں نے پیش گوئی کی کہ یہ نواز شریف کی عارضی فتح تھی جو آنے والے دنوں میں ان کیلئے مستقل شکست کی وجہ بنے گی
تین اپریل دو ہزار سولہ کو پاناما لیکس نے ایک بار پھر سیاسی درجہ حرارت کو گرما دیا ۔ اور شریف خاندان ایک بار پھر شکنجے میں آگیا ۔ ایک سو چونتیس روز سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی ۔ جس نے جے آئی ٹی بنائی ۔مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے ساٹھ روز میں اپنی رپورٹ عدالت عظمیٰ کو پیش کی ۔ جس کے بعد سپریم کورٹ نے پاناما عمل درآمد کیس کی مزید پانچ روز سماعت کی ۔اور فیصلہ محفوظ کر لیا

بطور صحافتی طالب علم ایک غیر جانبدارانہ تجزیہ ہے کہ تمام تر زمینی حقائق یہ چیخ چیخ کر پکار رہے ہیں کہ میاں نواز شریف کے سیاسی کیرئیر کا اختتام ہونے والا ہے ۔ آنے والے دنوں میں نواز شریف اور مریم نواز شریف سیاسی منظر نامے پر نہیں ہونگے ۔ نواز شریف کی جانشین مریم نواز شریف اتنے بڑے اسکینڈل کے بعد شاید ایوان میں تو پہنچ جائیں لیکن وزیراعظم بنتی نظر نہیں آرہیں ۔

لگ یہ رہا ہے کہ کڑے اور بے رحمانہ احتساب کا آغاز ہونے والا ہے ۔جس کی ابھی ابتدا ہے اور بہت سے لوگ اس کی زد میں آئیں گے ۔ قوم شخصیت پرستی کا بت توڑتے نظر آرہی ہے اور ہواؤں کا رخ بھی تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے ۔

ایک بات تو طے ہوتی نظر آرہی ہے کہ قسمت کی دیوی بھی نواز شریف کی مدد کرتے کرتے تھک گئی ہے اور اب مدد کو آنے کو تیار نہیں ۔یہ تو صرف ماضی کی بنیاد پر صرف تجزیہ ہی ہے لیکن حقیقت آشکار ہونے میں کچھ زیادہ دوری نہیں ۔ اور آنے والے وقت میں سب منظر نامے پر آجائے گا ۔

(محمد علی میو 2000 سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ روزنامہ دن رپوٹنگ جبکہ روزنامہ اساس اور روزنامہ خبریں میں نیوز روم میں ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں۔ 2007 میں الیکٹرانک میڈیا کا حصہ بنے اور اب دنیا نیوز سے وابستہ ہیں۔)

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: