پنامہ کا ہنگامہ اور سیاسی رویے

تحریر یوسف منہاس

پناما کا ہنگامہ۔۔ واقعی ہنگامہ خیز ثابت ہوا ۔۔ ملک میں سرگرم ہر سیاسی جماعت نے سیاسی فضا کو مکدر کرنے میں اپنا اپنا حصہ بقد جثہ ڈالا ۔۔۔ شکوہ جواب شکوہ کا سلسلہ دراز ہوا تو کہیں ڈھکے چھپے اور کہیں صاف لفظوں میں ملکی اداروں کو خوب لتاڑا گیا ۔۔۔ یہاں تلک کہ متاثرین جن اداروں سے انصاف کی آس لگائے بیٹھے ہیں ان ہی اداروں پر ملفوف انداز میں طعنوں ، تشنیع کا بازار بھی گرم کر رکھا ہے ۔۔ بعض ناعاقبت اندیشوں نے تو شاہ کی وفاداریاں سمیٹنے کے لئے کھلے بندوں دھمکیاں بھی دیں ۔۔ اور ایک دوسرے کے پول بھی اس طرح کھولتے رہے جیسے پرائمری کے بچے آپس میں جھگڑنے کے بعد ایک دوسرے کو کھلائی گئی کینڈیوں اور چاکلیٹوں کا حساب مانگتے ہیں ۔۔

دشنام طرازیوں کا یہ سلسلہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہماری سیاسی جما عتوں کے رہنما جمہوریت کے ان بنیادی اصولوں سے نہ صرف خود یکسر نابلد ہیں ۔۔ بلکہ انہوں نے اپنے کارکنوں کی سیاسی تربیت بھی اس انداز میں نہیں کی جو ان کارکنوں کو ایسے حالات میں مدلل گفتگو اور تحمل کے ساتھ حالات کے مطابق اپنا رویہ اختیار کرنے میں مدد گار ثا بت ہو سکیں ۔۔ مخالفین کا نکتہ نظر سننے، اس کا عقلیت پسندانہ سطح پر جواب دینا، اور برداشت کا دامن تھامے رکھنا ہی سیاست ہے ۔۔۔ محض اونچی آواز میں گفتگو

ہڑ بونگ دھینگا مشتی جگت بازی ، کردار کشی اور ایسی ہی دوسری خرافات نے عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار اس مشن کو نہ صرف کسی حد تک بدنام کیا ہے بلکہ سلجھے ہوئے افراد کے آگےآنے میں کئی مشکلات پیدا کر دیں ۔۔۔

جب رہنما ہی بہک جائے تو کارکنوں کاکیسا شکوہ ۔۔ یہ اعتراف کرلینے میں بھی کوئی امر مانع نہیں کہ سیاسی جماعتیں اس میدان میں قطعی بانجھ نظر آتی ہیں۔۔ اور یہ ہی وجہ ہے کہ ملکی سیاست کے منظر نامے میں مکالمہ کم اور لفظی جنگ وجدل کی کیفیت زیادہ نظر آتی ہے ۔۔اگرچہ صحتمند مذاکرات۔ مانو اور منواؤ کی پالیسی وہ کنجی ہے جس سے سیاسی راہداریوں کے ہر بند کواڑ کو کھولا جا سکتا ہے ۔۔۔

المیہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے سربراہان نے اس بات کا کبھی ادارک ہی نہیں کیا کہ ان پر کس قدر بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی جماعتوں سے منسلک ہر چھوٹے ، بڑے کارکن کی سیاسی سطح پر اس انداز میں ذہنی آبیاری کرتے کہ ان کے قول و فعل میں سیاسی بالغ نظری جھلکتی نظر آئے ۔۔۔ وائے رے قسمت کہ کارکن خواہ ان کا تعلق کسبی جماعت سے ہو “شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار “ہونے کے ناطے “بنا ہے شہہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا” کے مصداق وہ کچھ کر بیٹھتا ہے جسے کوئی بھی صاحب عقل ودانش تسلیم نہیں کر سکتا ہے ۔۔۔ لوگوں کے ذہنوں میں توڑ پھوڑ اور تقاریر کے ایسے کئی حوالے ابھی محفوظ ہو ں گے ۔۔

ملکی سیاسی جماعتیں وہ اعلی جمہوری اقدار اختیار کرنے اور کارکنوں کو اس کی پاسداری سکھانے میں بھی یکسر ناکام نظر آتی ہیں جن اقدار کے زریعے ریاست میں جاری سیاسی نظام کو بجائے آکسیجن ٹینٹ میں رکھنے کے اسے ایک فعال اور صحتمندانہ روش پر گامزن کیا جا سکتا ہے ۔۔ اس المیے سے بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ سیاسی جماعتوں کے سربراہوں نے بھی کبھی اپنے ارد گرد اکٹھے ہونےوالے مداح سراؤں کی فوج طفر موج کی بیخ کنی یا ان کی حو صلہ شکنی کے موثر اقدامات نہیں کئے،یہی وجہ ہے کہ آج ادارے کمزور اور صاحبان اقتدار مضبوط ہیں ۔۔حالانکہ ریاست کا انتظام وا نصرام چلانے کے لئے اداروں کا مضبوط ہونا ضروری ہے ورنہ ریاست میں پھیلی طوائف الملوکی نہ صرف صاحبان اقتدار کے لئے خطر ناک نتائج لاتی ہے بلکہ انتقامی سیات کو فرو غ دینے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے ۔۔۔ اچھے اور مستحسن فیصلے دیرتلک یاد رکھے جاتے ہیں ۔۔۔

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: