تحریر:یوسف منہاس
جمہوریت بیگم پیروں میں گھنگھرو باندھ کرادھر ادھردیکھ رہی تھی کہ اصغری بائی کی آوازنے جمہوریت کو چونکا دیا
اصغری بائی نےجمہوریت کی طرف ہاتھ بڑھا کر بلائیں لیتے ہوئے کہاچندے آفتاب ،، چندےماہ تاب ،،،،
میں صدقے میں واری ، اللہ نظر بد سے بچائے
چل شاباش ، تیار ہو جا میری رانی
میاں صاحب ! راؤ صاحب،مخدوم صاحب ، خان صاحب ، شیخ صاحب
صاحبزادے، نواب،
اصغری بائی کا جملہ ابھی پورا نہیں ہوا تھا کہ
جمہوریت نے اصغری بیگم کا جملہ اچکتے ہوئے گرہ لگائی اور کئی حرام زادے ،،
نہ نہ ایسا نہیں کہتےہمارے لئے تو سب ہی معتبر ہیں
معتبر یا تماش بین
جمہوریت بیگم نے ہاتھ نچاتے ہوئے کہا چل چھوڑ تو کہاں اس بحث میں الجھ رہی ہے میری رانی
جمہوریت بیگم نے کہا اماں ہر دفعہ یہ ہی لوگ چنے جاتے ہیں ،
کیا ملک کو سنوارنے کا ٹھیکہ ان ہی لوگوں نے لے رکھا ہے ،
اور پھر دولت کے انبار بھی یہ ہی لگا لیتے ہیں
جمہور بے چارہ،اس کے سر میں توان کی گزرنے والی گاڑیوں کی دھول ہی پڑتی ہے
وہ قاضی صاحب۔۔
ایک زمانہ ان کی شرافت کی قسم کھاتا ہے وہ تو کبھی منتخب نہیں ہوئے ،
ایسا کیوں ہے اماں ،،،
میری کٹو رانی ، تیری سمجھ میں نہیں آئے گی یہ بات،
جنہیں تونےاتنی موٹی سی گالی دے ڈالی ،
معاشرہ انہیں اشرافیہ کہتا ہے اور حق بھی ان ہی کا ہے ،
پولیس کوتوالی ،ہر جگہ ان ہی کی چلے ،
یہ جب چاہیں سیاہ کو سفید ، سفیدکو سیاہ کر ڈالیں،
کون جانے قاضی صاحب کو ،
پلے نہیں دھیلہ ، کرتے پھریں ،، میلہ۔۔ میلہ
میری کٹو رانی ، یہ باتیں تیرے سوچنے کی نہیں ،
تو اماں کیا میں یونہی ناچتی رہوں گی ،
اب تو ناچ ناچ کر پیروں میں بھی چھالے پڑ گئے ہیں
ہڈیاں چٹخنے لگی ہیں اور یہ بڑے بڑے پیٹوں اور مکروہ چہروں والے ،
جب نزدیک آتے ہیں تو ان کے منہ سے انسانی خون کی بو آتی ہے
اصغری بائی کی ماں اکبری بائی نےجمہوریت کی باتیں سنیں تو
اصغری بائی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا
چل ہٹ پیچھے،جمہوریت اب جوان ہو رہی ہے
کچھ بولنے کا حق تو اسے بھی ہونا چاہیے ،
اچھا بولے یا برا ، حق تو ہے اسے بھی
بس جمہوریت بیگم بڑی اماں کی اسی ایک بات پر پسیج گئی
جمہوریت نے بڑی ٘اماں کی لچھے دار باتیں سن کر اپنی باہیں اصغری بائی کے گلے میں ڈال دیں
اورایک بار پھر ناچنے کے لئے تیار ہوگئی
ام۔۔ ماں
اب تو ۔۔ تو ناراض نہیں ،
چھن،،، چھن ،،، چھن ،،