امریکی دفاعی بل پاس، پاکستانی امداد میں کمی

امریکی ایوانِ نمائندگان نے مالی سال 2018 کے لیے 696 ارب ڈالر کے بھاری حجم کا دفاعی پالیسی بل پاس کردیا۔ پاکستان کی امداد میں کمی کر دی گئی ہے۔
بل کا حجم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بجٹ اضافے میں کی گئی درخواست سے کہیں زیادہ ہے جبکہ یہ طویل عرصے سے محدود قومی دفاعی اخراجات کے خاتمے کا سبب بھی بنے گا۔
دفاعی پالیسی بل کے حتمی مسودے پر جمعہ کے روز ایوان نمائندگان میں بل کے حق میں 344 جبکہ مخالفت میں 81 ووٹ ڈالے گئے۔
فیصلہ کن انداز میں منظور ہونے والے اس بل میں پاکستان کو دی جانے والی امریکی امداد پر پابندیاں سخت کرنے کی دفعات بھی شامل ہیں۔
اس سے قبل جمعرات کو امریکی کانگریس کے ایک اہم پینل نے پاکستان کے لیے امریکی سول اور عسکری امداد کو افغان طالبان کے خلاف جنگ سے مشروط کرنے کے حوالے سے سماعت کا آغاز کیا تھا۔
بل مالی سال 2018 میں دفاعی اخراجات پر 696 ارب ڈالر تک استعمال کی اجازت دیتا ہے، جبکہ اس میں پینٹاگون کے اہم ترین آپریشنز کے لیے امریکی صدر کی درخواست پر تقریباً 30 ارب ڈالر زائد رقم مختص کی گئی ہے۔
مذکورہ بل 2011 بجٹ کنٹرول ایکٹ کے تحت دفاعی اخراجات کی مقررہ 549 ارب ڈالر کی حد سے بھی 72 ارب ڈالر زائد ہے۔
مجموعی طور پر بل باقاعدہ صوابدیدی اور سمندر پار ہنگامی آپریشنز کے لیے 47.4 ارب ڈالر فراہم کرتا ہے جو مالی سال 2017 کے لیے مقررہ حد سے 10 ارب ڈالر کم ہے۔
واضح رہے کہ 10 ارب ڈالر کی اس کمی کے بعد او سی او فنڈنگ کا بجٹ 12 ارب ڈالر ہوجاتا ہے، جو عراق، افغانستان اور پاکستان میں جاری آپریشنز اور امداد پر خرچ کیا جانا ہے۔
بل میں پاکستان کے لیے امریکی امداد کو اسلام آباد کی جانب سے حقانی نیٹ ورک اور جنوبی ایشیائی خطے میں موجود دیگر عسکری گروپس کی مبینہ مدد کو روکنے سے مشروط کرنے کی دفعات بھی شامل ہیں۔
حالیہ دنوں میں اعلیٰ امریکی حکام اور قانون ساز پاکستان کو واضح پیغام دے چکے ہیں کہ وہ طالبان عسکریت پسندوں کے خاتمے میں امریکا اور افغان حکومت کی مدد کرے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر پاکستان ایسا نہیں کرتا تو امریکا پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات پر غور کرنے پر مجبور ہوسکتا ہے۔ امریکی حکام اور قانون سازوں نے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کا آپشن بھی دے رکھا ہے۔
رواں سال اپریل میں امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ ریکس ٹلرسن نے برسلز میں امریکی نیٹو اتحادی ممالک کو آگاہ کیا تھا کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان معاہدہ ٹرمپ انتظامیہ کا اہم ترین مقصد ہے۔
دوسری جانب 20 جنوری سے اقتدار سنبھالنے والی ٹرمپ انتظامیہ تاحال اپنی پاک-افغان پالیسی کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہے۔
اس پالیسی کے حوالے سے میڈیا میں سامنے آنے والی حالیہ معلومات کے مطابق نئی حکمت عملی افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد میں اضافے کی تجویز دے گی۔
ایک حالیہ نیوز بریفنگ کے دوران ترجمان اسٹیٹ ڈپارٹمٹ ہیتھر نویرٹ نے طالبان کو دہشت گرد تنظیم کی کٹیگری میں شامل کرنے سے گریز کیا۔
اس سوال کے جواب میں کہ آیا ٹرمپ انتظامیہ طالبان کو دہشت گرد قرار دے گی، ان کا کہنا تھا کہ ہماری افغان پالیسی پر جائزہ ابھی جاری ہے اور اس کا اب تک اعلان نہیں کیا گیا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: