مسیحائی کے منتظر مسیحا

نامعلوم ڈاکٹر

ابھی نور فاطمہ کی آنکھوں کو بے نور ہوئے ڈیڑھ ہفتہ نہیں گزرا کہ ڈاکٹر پھر انسانیت بھول کر مریضوں کو ہسپتالوں میں تڑپتا سسکتا چھوڑ کر سڑکوں پر ‘پکنک’ منارہے ہیں۔

لاہور کے چلڈرن ہسپتال میں نہ جانے کتنا بے حس ڈاکٹر ہوگا جس کو ننھی جان پر ذرا ترس نہ آیا اور اس نے اپنی ‘غفلت’ اور ‘لاپرواہی’ سے اس بے چاری کی جان ہی لے لی۔

مجھے تو دو سو فیصد یقین ہے کہ سفید کوٹ پہنے ڈاکٹر کے ساتھ سفید لباس میں نرس بھی اس جرم میں برابر کی شریک ہوگی۔

تبھی تو نور کے لواحقین نے اس نرس کو تھپڑ مارا۔ ہسپتال میں توڑ پھوڑ کی۔ ڈاکٹر اور عملے کو یرغمال بنائے رکھا۔ اب وہ بے چارے اور کر بھی کیا سکتے تھے۔ ان کی بچی جان سے گئی، ان کا غصہ حق بجانب ہے۔ انہیں تو چاہیے تھا کہ ‘عدل شہبازی’ کی زنجیر ہلاتے۔ پھر دیکھتے انگلی کے ایک اشارے سے سب کے سب فائرنگ سکواڈ کے سامنے ہوتے۔

اب دیکھیں میو ہسپتال میں دل کا مریض صادق دم توڑ گیا لیکن مال روڈ پر دھرنا ختم نہ ہوا۔ نعرے لگے، بریانی بانٹی گئی، چائے کے دور چلے۔

dr-on-mall-5

پاکستان کے تمام بڑے چینلز پر ‘جید صحافیوں’ کی بڑی  رپورٹس چلیں، ہیڈ لائنز بنیں۔ ان حضرات نے شعبہ صحافت میں آنے سے پہلے یقینا میڈیکل کی اعلیٰ ڈگری لی ہوگی تبھی سکرینوں پر بڑے بڑے ڈبے گھومے کہ ڈاکٹروں نے ایک اور جان لے لی۔

خود کو طب کا بو علی سینا سمجھنے والے جید صحافیوں سے کوئی پوچھے کہ جو مریض جاں بحق ہوا اس کی میڈیکل ہسٹری کسی کو معلوم تھی؟ کوئی جانتا تھا کہ ہسپتال میں موجود ڈاکٹروں نے اس کی جان بچانے کے لیے کیا کوشش کی؟

خیر اس سے کسی کو کیا لینا دینا۔ خبر نشر ہونی تھی ہوگئی کہ میو اسپتال میں توجہ نہ ملنے پر مریض جاں بحق ہوگیا۔ اس سے اگلی ہی خبر تھی کہ جناب خادم اعلیٰ شہباز شریف نے انکوائری کے لیے کمیٹی بنادی۔ ایک بار پھر انگلی ہلادی ۔ دوبارہ سے ٹوپی گھمادی۔

وزیراعلیٰ پنجاب کی خدمت میں عرض ہے کہ ڈاکٹروں کو مال روڈ پر کلب چوک میں بیٹھے دوسرا روز ہے۔ آپ کا ٹھکانہ یہاں سے کچھ زیادہ دور نہیں۔ آپ تو چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے کھاتے پیتے سوتے جاگتے ہر لحظہ نوٹس در نوٹس لے رہے ہوتے ہیں۔

ان خاکساروں پر نظر کیوں نہ پڑی؟ ان سے پوچھنے کی زحمت کیوں نہ ہوئی کہ بھائی کیا تکلیف ہے؟ بس آپ کا نہ پوچھنا تھا اور یہ لوگ بھی ”بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم کوئی ہمیں اٹھائے کیوں ” کی صورت ہوگئے۔ نومبر کی سردی میں لاہور کی مال روڈ پر ‘پکنک’ منائی۔ دوسروں کا گلا درست کرنے والے گلا پھاڑ پھاڑ کر چیختے ہوئے گلے کرتے رہے پر صاحب کون پوچھتا ہے انہیں۔

ان کے مسائل ہیں تو رہیں، خود بھگتیں، کچھ کو معطل کریں گے، کچھ کو نوکری سے نکالیں گے، باقی ڈر کر دبک کر سہم جائیں گے اور محکمہ صحت میں پھر چین کی بانسری بجے گی۔

dr-on-mall-6

اب کچھ تذکرہ ہسپتالوں کا کرلیں۔ لاہور کا چلڈرن ہسپتال پنجاب میں بچوں کا اکلوتا ہسپتال ہے۔ خادم اعلیٰ شہباز شریف پنجاب بدلنے کے دعوے دار ہیں۔ پنجاب کے دلدار ہیں۔ اسی لیے یہاں بچوں کا کوئی دوسرا ہسپتال بننے نہیں دیا۔ 370 بستر کے ہسپتال میں صرف 1600 کے لگ بھگ بچے زیر علاج ہیں۔ ڈیڑھ سو کے لگ بھگ ڈاکٹر ہیں جو 24 گھنٹے تو کبھی 30 گھنٹے مسلسل کام کرتے ہیں اور سب کے سب ڈریکولا ہیں۔ تبھی تو آج تک اس ہسپتال سے کوئی بچہ زندہ بچ کر نہیں نکلا، شاید اسی طرح دوسرے ہسپتالوں میں بھی تمام انسان دشمن ڈاکٹر ہیں تبھی ہسپتال میں جانے والے کوئی بھی صحیح سلامت واپس نہیں آتا۔ کوئی ایک مریض بھی جان سے جائے تو چینلز کے لیے ‘ڈاکٹر کی غفلت’ والی ہیڈ لائن نکل آئے۔ (اس چلڈرن ہسپتال میں پنجاب کے دور دراز علاقوں سے ہی نہیں خیبرپختونخوا اور وزیرستان تک سے لوگ بچوں کو علاج کے لیے لاتے ہیں۔)

یہی ڈریکولا ڈاکٹر کئی جانیں بچاتے ہیں پھر ان کے گھر والوں رشتے داروں کی دعائیں بھی پاتے ہیں، کچھ کو نہیں بچاپاتے، ان کے چہرے انہیں یاد آتے ہیں، آنکھوں کے سامنے گھومتے ہیں، اپنے بچوں کی شکلوں میں دکھائی دیتے ہیں، کچھ ایسے بھیانک ڈاکٹر پوری عمر احساس جرم کا شکار بھی رہتے ہیں کہ اگر یوں ہوتا تو شاید مریض بچ جاتا، ایسے ہوجاتا تو شاید۔۔۔

ہمارے ہاں ایک مخصوص کلچر ہے کہ ایک مریض ہو تو پورا خاندان اور بعض اوقات پورا محلہ یا گاؤں تیماردار ہوتا ہے۔ بہت اچھا لگتا ہے ایسا، آج کل کے بے مروت دور میں اتنا خلوص ملنا بہت مشکل ہے۔ اتنی محبت تو بس اب کتابوں میں ہی باقی رہ گئی ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں علاج کے لیے جانے والوں کی بڑی تعداد ایسے سادہ مزاج لوگوں کی ہوتی ہے جو اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کرتے ہیں۔ ہسپتالوں کے صحن اور برآمدے مریضوں سے کم اور تیمارداروں سے زیادہ بھرے ہوتے ہیں۔ اکثر تو یہاں رشتے داریاں نکال رہے ہوتے ہیں یا بنارہے ہوتے ہیں۔ اب ایسے میں کوئی موت ہوجائے تو کون ان لوگوں کو طب کے پیچیدہ مسئلے سمجھائے۔ ان بے چاروں کے لیے تو ڈاکٹر ہی سب کچھ ہے، اگر ان کا مریض نہیں بچا تو وہی ذمہ دار ہے، ایسے میں اگر یہ مشتعل ہوجائیں تو ان کا قصور بھی نہیں۔

ہسپتال انتظامیہ کو بھی کوئی پرواہ نہیں کہ مریض کے ساتھ کتنے تیماردار ہیں۔ مریض اور ان کے تیمار دار کے روپ میں کون ہیں کوئی پوچھنے والا بھی نہیں۔ تمام ہسپتالوں کی سیکورٹی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے لیکن کیا کریں۔ حادثہ ہونے کا انتظار ہی کرسکتے ہیں۔

dr-on-mall-4

اصل مسئلہ کیا ہے کہاں ہے اور کیوں ہے اس پر توجہ دینے والا کوئی نہیں۔ چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں میں صحت کی سہولیات کیوں نہیں، ہسپتال کیوں نہیں، عملہ کتنا ہے اور سہولیات ہیں یا نہیں اس کا رونا کون روئے اور کہاں روئے؟ اب ہسپتالوں میں ناقص، غیر معیاری، زائد المیعاد اور جعلی دوائیں سیکڑوں جانیں لیتی ہیں، ٹھیکوں میں گھپلے ہوتے ہیں، مشینری پڑی سڑجاتی ہے لیکن کون پوچھے گا؟

وزیراعظم میاں نواز شریف پنجاب بدلنے کے بعد پاکستان بدلنے میں لگے ہیں۔ جگہ جگہ اپنے چھوٹے بھائی کی کارکردگی کو سراہتے نظر آتے ہیں۔ صحت کے شعبے میں اتنی انقلابی تبدیلی پر ‘شاباش شہباز شریف شاباش’ کہنا تو بنتا ہے۔

کچھ بات ہڑتالی ڈاکٹروں کی۔ میو ہسپتال کے ڈاکٹر اپنے ساتھی ڈاکٹر اور نرس کی بحالی کے لیے سڑکوں پر ہیں۔ انہوں نے ہسپتال میں مریض اور اس کے لواحقین کے ساتھ مار پیٹ کی تھی۔ ان کو برطرف کرنا بنتا بھی ہے۔ ایسے غنڈے ڈاکٹروں کو رکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔

میو ہسپتال، گنگا رام ہسپتال، جناح ہسپتال، لیڈی ایچیسن، لیڈی ولنگڈن اور چلڈرن ہسپتال لاہور کے بڑے ہسپتال ہیں اور یہاں کے ڈاکٹروں کو مریضوں کے علاج سے زیادہ سڑکوں پر نعرے لگانے میں دلچسپی ہے۔ آئے دن ہڑتال ہڑتال کا کھیل کھیلتے ہیں اور قیمتی جانیں لیتے ہیں۔

اب دیکھیں لڑتے خود ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں انہیں سیکورٹی فراہم کی جائے۔ مریض کا علاج کرنے کے ساتھ تیمارداروں کو میڈیکل کی تعلیم دینا اور ان کے قیام و طعام کا پورا خیال رکھنا بھی ان کی ہی تو ذمہ داری ہے۔ بلاشبہ ان ڈاکٹروں کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ شکوہ کریں، سیکورٹی مانگیں، سہولیات کا مطالبہ کریں۔

چودہ اکتوبر کو شاید راولپنڈی کے بے نظیر ہسپتال کی ایمرجنسی میں کوئی پھلجڑیاں چھوڑ گیا تھا۔ فائرنگ تو نہیں ہوئی تھی۔ آٹھ اگست کو کوئٹہ کے سول ہسپتال میں بھی شاید دھماکا نہیں ہوا تھا کوئی پٹاخہ ہی پھوڑا گیا تھا۔ آخر بدلا ہے پنجاب اور اب بدل رہے ہیں پاکستان!

Leave a Reply

Your email address will not be published.

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: