نیلم
کسی کی نظریں اتارنے، بھوکے رہنے یا دیوی ویوتاؤں کی عبادت وغیرہ سے کسی کے شوہر کی عمر نہیں بڑھتی۔ اگر ایسا ہوتا تو شاید کوئی بیوی بھی اپنے سہاگ کو ختم نہ ہونے دیتی۔
اگر آپ اپنے شوہر کی عمر بڑھانا چاہتی ہیں اور ان کی لمبی عمر کو کم از کم فطری معیار کے مطابق یقینی بنانا چاہتی ہیں تو بس مندرجہ ذیل کام کرلیں۔
اول اپنے شوہر کا بیڑی یا سیگریٹ پینا چھڑوا دیں تاکہ سگریٹ نوشی سے پھیپھڑوں خراب نہ ہوں
دوئم ثابت تمباکو پان کسی دوسرے سے کھانا بند كرا دیں تاکہ کینسر وغیرہ سے بچا جا سکے
پھر شراب پینا یا دیگر نشہ بھی بند كرا دیں تاکہ کسی خطرناک حادثے سے بچا جا سکے۔
بس اتنا کیجئے اور یقین کر لیں کہ ’’کروا چوتھ ‘‘مکمل ہو گیا۔
ایسے تمام توہمات اور خوف درحقیقت خواتین کو ذہنی غلام بنانے کی سازش ہیں ۔ ہرروز سینکڑوں خواتین کو بلا وجہ مذہب کے ٹھیکیداروں، بھگتوں، اور پنڈتوں کے پاؤں پڑوایا جاتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ انسانیت کے برخلاف عمل ہے۔
یہ سوچ اور توہمات ہمارے معاشرے کا حصہ بن گئیں ہیں۔ لوگ ہر روز مندروں میں سجی مورتیوں پر دودھ کی ندیاں بہا دیتے ہیں جبکہ پاکستان کی سڑکوں پر ہزاروں بچے بھوکے سوتے ہیں۔ یہ بھوکے پیٹ روز ایک نوالے کی امید پر جیتے اور مرتے ہیں۔
تاہم پھر بھی ہم لوگ انسانیت سے بے خبر اپنے دیوی دیوتاؤں کی رکھوالی میں لگے ہیں۔ ہم اس جال میں اس حد تک پھنس گئے ہیں کہ ہمیں انسانیت کی پرواہ ہی نہیں رہ گئی ۔
ہم کوئی بڑا درخت بھی دیکھ لیں تو وہاں چاولوں کی دیگیں تقسیم کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ مٹھیائیاں بانٹتے ہیں۔ ہم میں مذہب کا خوف اتنا زیادہ بڑھ گیا ہے کہ جیسے ہی کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے، اسے مذہبی ٹولے کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ کوئی یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتا کہ بچہ صحت مند ہے یا نہیں۔ اسے ڈاکٹر کی ضرورت ہے یا نہیں۔
ہم اس نومولاد کو بھی مذہبی جال میں ڈال کر اسے پر ہونے والی اذیت کومذہب کا پرچار سمجھتے ہیں۔ ذرا سوچیں کہ ان معصوموں کو کیا معلوم مذہب کا۔ لوگ انہیں اذییت دیتے ہیں اور کبھی کبھی تو ان کا وجود ہی ختم ہر جاتا ہے اور ہم اسے بھگوان کی مرضی قرار دے دیتے ہیں۔
لاکھوں ،کروڑوں کی سرمایہ کاری کر کے مندر بنائے جاتے ہیں جس سے کچھ لوگوں کو استحصال کا لائسنس مل جاتا ہے۔پھر وہ اپنے آقا کے نام پر چندا لیتے ہیں۔ تاہم اس سب میں مردوں، عورتوں اور بچوں کے ذہن کو آلودہ کیا جاتا ہے۔
خواب دکھا کر مظلوموں لوگوں کو اپنے غلام بنا دیا جاتا ہے۔ یہاں سینکڑوں کی تعداد میں ایسے لوگ نظر آئیں گے جو مذہب کے نام پر انسانوں کا کاروبار کر رہےہیں لیکن آج تک کوئی مسیحا سامنا نہیں آیا جو ان ڈھونگیوں کو روکے اور انسان کو غلامی سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کرے۔