’’کی بورڈ ‘‘ جہادی

حما د چیمہ

 

فیس بک پر ایک پوسٹ دیکھی جس میں لکھا تھا کہ سیاستدان اربوں کھا کر فرار ہوگیا۔بیوروکریٹ کروڑوں کھا گئے۔ بڑے بڑے مگرمچھ ملکی خزانہ ہڑپ کر گئے، مگر پولیس والا صرف اسے پکڑتا ہے جس نے ہیلمٹ نہیں پہنا۔

یہ پوسٹ پڑھ کر بہت تعجب ہوا اور میں تبصرہ کرتے کرتے رک گیا کیونکہ عوام کی سوچ کواس طرح سے ڈھالا جا چکا ہے کہ اگرملک کے کسی بھی ادارے کے خلاف بات کی جائے تو کار ثواب سمجھا جاتا ہے لیکن عسکری ادار پر بات بدترین توہین کے زمرے میں آتی ہے۔

غیر محسوس طریقے سے عوام کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے کہ ملک میں تمام تر خرابیوں کی جڑ صرف اور صرف جمہوری نظام ہے اور اگر کوئی قوت ملک کو بچائے ہوئے ہے تو وہ صرف اور صرف عسکری ادارہ ہے۔

اس سوچ کو پروان چڑھانے میں ہمارے سول اداروں نے خود بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ اور اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہمارے عسکری ادارے بہت ہی مضبوط ہیں اور ہر کڑے وقت اور ناگہانی آفات میں یہی ادارے کام آتے ہیں۔

دوسری جانب اگر ہم پوسٹ پر توجہ دیں تو سوال اٹھتا ہے کہ آخر یہ سوچ پیدا کیسے ہوئی؟ کیوں ہمارے رکھوالے صرف ہیلمٹ نہ پہننے والوں کو پکڑتے ہیں؟ آخر پولیس وارداتوں کا تدارک کرنے کے بجائے واردات کے انتظار میں ہی کیوں رہتی ہے؟ ہر دفعہ بم پھٹنے کے بعد ہی سیکیورٹی کیوں سخت کی جاتی ہے؟ اتنی بندوقوں اور گاڑیوں کے باوجود پولیس کا ادارہ ناکام کیوں ہے؟

یہ سوالات صرف میرے ہی نہیں بلکہ ہر شخص کے ذہن میں گردش کرتے ہیں مگر ان کا جواب کسی کے پاس نہیں  یا شاید کوئی جواب دینا نہیں چاہتا۔ اگر معاشرے کے بڑوں سے اس کا جواب طلب کیا جائے تو وہ کچھ اس طرح سے فرماتے ہیں،  ’چھڈو جی! اے کم ای بھیڑا اے۔۔ اے محکمہ کدی ٹھیک نہیں ہو سکدا۔۔‘

اگر کوئی پولیس والا اپنی ڈیوٹی ایمانداری سے کرنے کی جسارت کرے بھی تو اس کے راستے میں رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں۔ چاہے موٹروے پر کسی کو اوور اسپیڈنگ پر روکنا ہو، یا پھر کسی سرکاری پروٹوکول میں میں پھنسے کسی غریب کی ایمبولنس کو اسپتال جانے کا راستہ دینا ہو۔وہ معاشرے کی نظر میں برا ہی رہے گا۔

اگر کوئی پولیس اہلکار انسانیت کے ناطے کسی کی مدد کر دے تو افسروں کو نہیں بھاتا اور اگر اکثریت کے رنگ میں رنگ جائے تو کرپٹ۔ اگر کسی خاتون کی اخلاقی بنیادپر مدد کرے تو رنگیلا اور اگر مشکوک ہونے کی بنا پر روکے تو بے حس اور اخلاقی قدروں سے کورا۔

پولیں کی مثال اس نفسیاتی بچے کی طرح ہے جسے چالاک ساتھی بدنام کر دیتے ہیں۔ وہ بچہ لاکھ کوشش کرے مگر کوئی اس کا صحیح امیج تسلیم کرنے کو کوئی تیار ہی نہیں ہوتا۔اور آخر میں وہ بچہ واقع بدنام زمانہ بن کر ہی رہ جاتا ہے۔

پولیس کے بارے میں میری سوچ بھی کچھ مختلف نہیں تھی مگر جب مناوا ں پولیس اکیڈمی پر حملہ ہوا تو اسے اتفاق کہہ لیں یا کچھ اور تو ناچیز اس وقت میں تھانہ جوہر ٹاﺅن میں موجود تھا۔ وہاں سے کافی جوان اپنے ساتھیوں کی مدد کو جا رہے تھے۔ تھانے کے منشی صاحب سب کو اسلحہ فراہم کر رہے تھے۔

عین اس وقت جب وہ گولیوں کی تقسیم کررہے تھے تو ایک پولیس والا بڑے تعجب سے بولا، ’منشی صاحب کی کررے او؟ میں دو گولیاں نال پورا ایریا کس طرح کوور کراں گا؟‘ مگر منشی صاحب نے اپنے تجربے کی بنیاد پراس پولیس والے کو بھیج دیا اور کہا کہ یہ بھی بہت ہیں۔

بعد میں مجھے یقین ہوا کہ وہ واقعی بہت زیادہ تھیں کیونکہ پولیس والوں سے ہر چلائی گئی گولی کا حساب لیا جاتا ہے۔پولیس اور جرائم پیشہ عناصر میں مڈھ بھیڑ ہوجائے اور نوبت مقابلے تک پہنچ جائے تو پولیس اہلکاروں کو وائرلیس پر کنٹرول روم بات کر کے اجازت لینا پڑتی ہے، ورنہ انکوائری بٹھا دی جاتی ہے کہ اسلحہ کب ،کیسے اور کس کی اجازت سے استعمال ہوا۔ انکوائریاں بھگتنے کے کوئی بھی موڈ میں نہیں ہوتا۔

سول رکھوالوں کا عسکری اداروں سے موازنہ قوم کی پرانی عادت ہے اور پولیس والوں کو گالیاں دینا تو محبوب قومی مشغلہ ہے۔پان سگریٹ کے کھوکھے پر موجود عوام پولیس والوں کو نازیبا الفاظ سے یاد کرکے فخر محسوس کرتے ہیں لیکن وہاں پر کوئی فوجی آ جائے توہر کوئی اٹھ کر اسے سلیوٹ کرتا ہے۔

یہ صرف ڈکٹیٹرشپ اور مارشل لاءبھگتنے والی نسل کی خوئے غلامی نہیں بلکہ اب تو نوجوان نسل میں بھی یہ خصلت پائی جانے لگی ہے۔۔

قصہ مختصر، اس صورت حال سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتاہے کہ کھیل صرف اختیارات کاہے ۔ اگر ہم پولیس اور فوج کا موازنہ کرتے ہیں توہمیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ آیا پولیس کے پاس فوج جتنے اختیارات ہیں کہ نہیں؟جدید اسلحہ فوج کے پاس ہوتا ہے اور گنا چنا نہیں۔گھر ، سیکیورٹی اور معاشرتی قدر بھی انہیں ہی میسرہے۔

معاشرے میں عزت بھی ان کی ہے۔مراعات بھی انہیں بہتر ملتی ہیں۔ان کے بچوں کا مستقبل زیادہ محفوظ ہوتا ہے اور اسک ے برعکس پولیس کا بہبود فنڈ بھی ضرورت پڑنے پرکسی میٹرو منصوبے کو منتقل ہو جاتا ہے۔

جب حالات ایسے ہوں تو پولیس اور سول اداروں سے کیا توقع رکھی جائے؟ کسی کو کیا پڑی کہ طاقتور اور بااثر کی راہ میں حائل ہو کر اپنی درگت بنوائے ؟ میرے خیال سے ہمیں اس پولیس افسر کا مشکور ہونا چاہئے جو ہیلمٹ نہ پہننے والوں کو پکڑتا ہے۔ چلو اسی بہانے قانون کی حکمرانی کا جھنڈا تو بلند رہتا ہے !

حماد چیمہ 92نیوز میں پروڈیسر کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں

www.facebook.com/chee4x

twitter: cheems9

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: