نوازشریف اور آرمی چیف

وزیراعظم نوازشریف جب بھی نئے آرمی چیف کا انتخاب کریں گے تو دیگر عوامل کے ساتھ ان کی ذاتی پسند ناپسند، سیاسی عوامل، نئے آرمی چیف کے ساتھ ان کا ورکنگ ریلیشن شپ بنیادی اہمیت کا حامل ہوگا۔ ریٹائرڈ اور حاضر سروس بیوروکریٹس اور فوجی افسروں کے مطابق وزیراعظم ایسے آرمی چیف کو ترجیح دیں گے جس سے ان کا سیاسی مستقبل ’’محفوظ‘‘ رہے۔

نومبر کے آخر میں جب جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت مکمل ہوگی تو نیا آرمی چیف عہدہ سنبھالے گا۔

نیا آرمی چیف کون؟ شہر اقتدار میں ہلچل

وزیراعظم نوازشریف پانچویں مرتبہ آرمی چیف کا انتخاب کریں گے جو پہلے ہی سب سے زیادہ آرمی چیف لگانے کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ اگر 1999ء میں پرویز مشرف کی جگہ جنرل ضیاء الدین کی تقرری کو بھی ملایا جائے وزیراعظم نوازشریف چھٹی مرتبہ آرمی چیف کا تقرر کرنے جا رہے ہیں۔

نوازشریف نے اس سے پہلے 1991ء میں جنرل آصف نواز جنجوعہ، 1993ء میں جنرل وحید کاکڑ اور 1998 میں جنرل پرویز مشرف جبکہ 2013ء میں موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا انتخاب کیا۔

جنرل ضیاء الحق کے بعد آنے والے بری افواج کے سات سربراہوں میں سے پانچ نوازشریف نے ہی منتخب کئے ہیں۔

آرمی چیف اور سنیارٹی

آرمی چیف کے انتخاب کی پیچیدگیوں کے باوجود نوازشریف اس عہدے پر تعیناتیوں میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ مئی 2013ء میں الیکشن جیتتے ہی ’انہوں نے جو پہلے کام کئے‘ ان میں اپنے رفقا سے نئے آرمی چیف پر تبادلہ خیال بھی شامل تھا، حالانکہ ابھی انہوں نے حلف بھی نہیں اٹھایا تھا اور آرمی چیف کے تقرر میں چھ ماہ باقی تھے۔

اس وقت وزیراعظم کو مشورہ دیا گیا تھا کہ سینارٹی لسٹ نظرانداز کرنے کے ماضی کے تلخ تجربات اور آرمی چیف کے عہدے کی طاقت کا خیال رکھیں اور ’اپنا بندہ‘ کی ذہنیت سے نجات حاصل کریں۔ کیونکہ جونہی کوئی جنرل بری افواج کا سپہ سالار بنتا ہے تو اس کی ذات سے زیادہ عہدہ اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔

2013ء میں آرمی چیف کے طریقہ انتخاب میں شریک رہنے والوں کے مطابق وزیراعظم نے اس وقت سنیارٹی لسٹ کو ملحوظ خاط رکھا تھا اور جنرل راشد محمود کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور جنرل راحیل شریف کو چیف آف آرمی سٹاف مقرر کیا۔ اگرچہ اس وقت سینئر موسٹ جنرل ہارون اسلم کو نظرانداز کیا گیا لیکن اس کی وجہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مخالفت تھی۔

آرمی چیف کا طریقہ انتخاب اور عوامل

حکومتی ذرائع کے مطابق جنرل راحیل شریف کے جنوری میں توسیع نہ لینے کے بیان کے ساتھ ہی پس پردہ سیاسی جوڑ توڑ شروع ہوگیا تھا۔ یہ پس پردہ جوڑ توڑ ہی سوشل میڈیا پر ان کی رخصتی کے حق اور مخالفت میں بیان بازی کی صورت میں سامنے آیا۔

یہی وہ عناصر تھے جنہوں نے میڈیا اور بینرز پر جنرل راحیل شریف کے مستقبل کے بارے میں چہ میگوئیاں اور بحث و مباحثے جاری رکھوائے۔

 

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: