بھارت جنسی زیادتی سے مانوس

پرول ورما

کسی بھی حرکت کی روک تھام یا پھر اسے معمول سمجھنے میں ایک باریک لکیر ہوتی ہے۔ اگر ایک انتہائی غلط عمل کو قبولیت مل جائے اور اسے ناگزیر سمجھا جانے لگے تو پھر یہ معاشرتی تباہی کی وجہ بن سکتا ہے۔ ہندوستانی معاشرے میں  جنسی زیادتی ایسا ہی عمل بن گیا ہے۔ اسے ایک مردانہ ضرورت کے طور پر دیکھا جانے لگا ہے، یعنی وہ خواہش جو مرد کا استحقاق بن گئی ہے۔ پولیس بھی ایسے مقدمات میں نمائشی کارروائی کر رہی ہے اور متاثرہ خاندانوں کو روایت اور بدنامی سے خوف زدہ کیا جاتا ہے تاکہ کوئی اس کے متعلق کچھ نہ بولے۔

اس مضمون میں میرا مقصد صرف اتنا ہے کہ دنیا کو بتایا جائے کہ کیسے قوانین کی مدد سے جنسی زیادتی سے مانوس کیا جا رہا ہے۔ حکومت ایک غیر فعال حکمت عملی سے یہ تاثر دے رہی ہے کہ یوں تو ہوتا رہے گا، بہتر ہے عوام اپنی لڑکیوں کو سمجھائیں۔ حالانکہ حکومتی بے حسی سے عصمت دری کو فرغ دیا جا رہا ہے۔ اگر آج ہم نے بنیادی سوالات نہ اٹھائے تو کل کوئی بھی اس سے محفوظ نہیں رہے گا۔

india-rape-protest-AP324182

آخر بھارتی سماج اجتماعی طور پر اس قبیح عمل سے مانوس کیوں ہو رہا ہے؟ آخر اسے سیاسی طور پر معمول کا عمل کیوں قرار دیا جا رہا ہے؟ آخر بطور معاشرہ ہم سب کی خاموشی کیا اس عمل کو مستحکم نہیں کر رہی؟ آخر ہم نے عورت کو بسوں میں علیحدہ جگہ دے کر کیا اسے محفوظ سمجھ لیا ہے؟ کیا علیحدہ جگہ دینا بذات خود غیر معمولی عمل نہیں ہے؟

خاتون کی لاش کیا سیاسی فتح ہے؟
بھارت میں عصمت دری مابعد نوآبادیاتی دور میں معمول بن گئی۔ کیا یہ حیران کن نہیں۔ کیا آزادی کا مقصد عورت پر حملوں کی آزادی تھا؟ حیران کن بات ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات ہوں یا قومی لسانی جھگڑے، خاتون کا جسم ان میں بنیادی ہدف ہے۔ کیوں؟
آزادی ہند یا تقسیم کے موقع پر ایک لاکھ خواتین ہندو، مسلمان، سکھ مردوں کا نشانہ بنیں۔ انہیں اغوا کیا گیا،جنسی تشدد کیا گیا، اور بیشتر مواقع پر استعمال کے بعد قتل کر دیا گیا۔

women

خواتین کا جسم قومی پرستی اور طاقت دکھانے کا اظہار بن گیا۔ زیادتی کا نشانہ بننے والی خاتون کا جسم مفتوحہ علاقہ تھا۔ فتح کا اظہار، طاقت کی سرچشمہ، عجیب بات ہے نا؟ حالانکہ یہ سب نعرے بازی بھارت ماتا کے نام پر ہوئی، وہ بھارت ماتا جس کے جسم کو غیرملکی درندوں سے بچانا تھا۔ تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ بھارت ماتا کو آزاد کرانے کا مقصد اسے خود لوٹنا تھا؟ تاکہ اس پر حق جمایا جا سکے، جو ہم اغیار کی موجودگی میں نہیں کر پا رہے تھے، آزادی کے بعد اس کا موقع ملا اور ہم نے اس کے جسم کو تار تار کر دیا، فتح کیا، اور اس پر اپنی غلامی کے داغ لگا دیئے۔ شاید یہ سب کچھ مردوں کے نفسیات میں تھا جو سب سے زیادہ آزادی کے نعرے لگاتے تھے۔ اس جوش کے معنی شاید ہم اب بھی پوری طرح نہیں سمجھ سکے۔

خواتین کا جسم متشدد جدوجہد کی علامت بن گیا۔ اس وحشیانہ عصمت دری میں مخالفین کی فرقہ وارانہ اور مذہبی فتح جھلکتی ہے کہ کس نے مخالف کی کتنی عورتوں سے زیادتی کی؟ فتح کی کیسی عجیب علامت ہے؟ ڈاکٹر ڈے اے لو کہتے ہیں کہ جب مخالف مرد مر رہے ہوتے ہیں تو عورتوں کو اغوا کیا جاتا ہے۔  کیسی گہری بات کرتے ہیں ڈاکٹر، بس غور کرنے کی ضرورت ہے۔ شاید اسی وجہ سے عورتوں کے نرم جسم کئی مذاہب میں اظہار کا انداز کرتے ہیں۔

زیادتی میں صرف خواتین کے  جسم پامال نہیں ہوتے  بلکہ مخالفین پر فتح کا ثبوت بھی دیا جاتا ہے۔علاقے کو فوج سے فتح کرنے کے بعد انہیں عملی طور پر فتح ہمیشہ خواتین سے زیادتی کے ذریعے کیا گیا،  یہ ایک رویہ ہے۔ اس جیت کی علامت ان کی چھاتیاں کاٹنا، ان کی جلد داغ دار کرنا، اور پھر انہیں قتل کرنا ہے۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق تیراسی ہزار خواتین پر تقسیم کے دوران ایسا تشدد ہوا لیکن غیر سرکاری اعداوشمار اس سے کہیں زیادہ ہیں۔

another-unthinkable-rape-is-rocking-india

آزادی کے بعد بھارت میں عصمت داری کا رویہ عام ہو گیا۔ قوم پرستانہ لڑائی ہو یا کچھ اور بس نشانہ خواتین ہی ہوتی ہیں۔ سانحہ گوجرہ کی بات کر لیں تو قتل ہونے والی تمام خواتین کے ساتھ پہلے زیادتی کی گئی۔ بچ جانے والی خواتین میں سے بھی کوئی ایسی نہ تھی جو اس تشدد سے بچ سکی ہو۔ وہاں بھی خواتین کو زیادتی اور اجتماعی زیادتی کا شکار بنایا گیا، بلکہ ایک نیا معاملہ بھی آ گیا ہے جو پہلے نہیں تھا، یعنی اسٹرپنگ، ناچ ناچ کر کپڑے اتارو۔

انیس سو چوراسی میں سکھوں کے قتل عام کے معاملے میں بھی پولیس اور فوج نے خواتین کو ریاستی سطح پر تشدد کا نشانہ بنایا اور وہی سب کیا جو مفتوحہ علاقے میں کیا جاتا ہے۔ پھر بھی سرکار کہتی ہےکہ یہ معمول ہے۔ اگر معمول ہے تو پھر ایسا کیوں کیا جاتا ہے؟

ہندوستانی معاشرے میں خواتین کےلئے کچھ خاص قانون ہیں جو ان پر پورا نہ اترے وہ ساوتری نہیں، یعن پاک باز نہیں۔ اب اس سے آگے کیا بتانے کی ضرورت ہے کہ اسے کیا سمجھا جاتا ہے۔

سیاسی یا قوم پرستانی جنسی نظریات سکے کا صرف ایک رخ ہیں، پوری حقیقت نہیں، علمی اور نظریاتی طور پر مرد کے اعضا اور اس کی اہمیت کو یوں پیش کیا جاتا ہے کہ اسے خود بخود تمام غلط کام کرنے کی اجازت مل جاتی ہے۔ کیونکہ یا لڑکی سیتا ہے یا پھر نربھیا ریپ کیس کی طرح، جہاں زیادتی کرنے والے نے فخر سے کہا کہ اسے زیادتی کے لئے خاتون نے اکسایا۔ اس نے زیادتی کی اور پھر قتل بھی کر دیا۔ یعنی اس نے انصاف کر دیا۔

خواتین جب علیحدہ ڈبے میں سفر کرتی ہیں تو ان کا مقصد صرف اپنے آپ کو محفوظ بنانا نہیں ہوتا بلکہ مردوں کو محفوظ بنانا ہوتا ہے؟ تاکہ آپ کسی کو عصمت داری پر ورغلا نہ سکیں۔ خواتین نا چاہتے ہوئے بھی نفسیاتی طور پر قائل ہیں کہ وہ مردوں کو ایسے عمل پر آمادہ کر سکتی ہیں۔ کیسی عجیب بات ہے، مگر صدیوں تک سکھایا جائے تو پھر نتائج یہی نکلتے ہیں۔ لیکن آخر ایسا کیوں نہیں ہو سکتا کہ ہم عام طریقے سے سب کے ساتھ سفر کریں؟ کیا یہ صرف خواب رہے گا۔  ایک ہولناک ناپسندیدہ جنسی عمل پر  مجرم مؤثر قانونی نتائج سے فوری طور پر چارج کیا جائے گا، اس پر یقین کیوں نہیں کر سکتے؟

x

Check Also

شامی بچے، ترک مہربان

ترکی کی اپوزیشن پارٹی  سی ایچ پی کی رپورٹ ترکی میں آنے والے شامی بچوں ...

شامی پنجرہ

جیمز ڈین سلو   شام کا بحران دن بد دن بد سے بد تر ہو ...

برطانیہ کا عظیم جوا

مروان بشارا برطانیہ نے یورپی یونین سے باہر آنے کا فیصلہ کر لیا۔ اب ہر ...

%d bloggers like this: