نازک صاحب کا بکرا

رؤف پاریکھ

نازک صاحب ہمارے محلے میں رہتے تھے۔ نام تو ان کا اللہ جانے کیا تھا لیکن اپنی حرکتوں اور حلیے کی وجہ سے سارے محلے میں نازک صاحب کے نام سے مشہور تھے۔
دبلے پتلے دھان پان آدمی تھے۔ پھونک مارو تو اڑ جائیں۔ ذرا سی بات پر بگڑ جاتے تھے۔ جب وہ کوٹ پتلون پہنے، باریک سنہری کمانی کا چشمہ لگائے، ایک ہاتھ میں چھڑی اور دوسرے میں بکرےے کی رسی تھامے محلے میں نکلتے تھے تو ان کی دلچسپ حرکتوں کی وجہ سے راہ چلتے لوگ بھی رک کر انہیں دیکھنے لگتے تھے۔ کبھی چھوٹے چھوٹے پتھروں پر پائوں رکھنے سے انہیں موچ آجاتی اور کبھی اپنے بکرے کی مریل سی “میں ایں” سن کر ڈر جاتے۔ ان کا بکرا بھی خوب تھا۔ موٹا تازہ کالے رنگ کا لیکن کان دونوں سفید۔ محلے میں نازک صاحب سےز یادہ ان کا بکرا مشہور تھا۔ نازک صاحب نے اسے بڑے پیار سے پالاتھا۔ کسی کی مجال نہیں تھی کہ ان کے بکرے کو ہاتھی بھی لگائے۔ وہ اکثر اپنے بکرے کی عظمت، ذہانت اور اس کے اعلیٰ خاندان کے قصے سنایا کرتے تھے۔ کہتے تھے کہ “اس سے ذہین، خوب صورت، بہادر اور شریف نسل کا بکرا آج تک پیدا نہ ہوا، اس بکرے کا پر دادا مغل بادشاہوں کا پالتو اور شاہی بکرا تھا۔ اس کا دادا پنجاب کے سکھ حکم راں رنجیت سنگھ کے ہاں پلا بڑھا تھا۔ اس بکرے کی ماں دوسری جنگ عظیم  میں انگریز فوجوں کے ساتھ محاذ جنگ پر رہتی تھی اور انگریز فوجیوں نے کئی لڑائیاں صرف اس بکری کا دودھ پی پی کر جیتی تھیں”۔
اس پر کوئی بچہ مذاقاً کہتا، “پھر تو اس کی ماں بکری کو بہادری کے صلے میں کوئی بڑا تمغا بھی ملا ہوگا”۔
تو وہ بڑی سنجیدگی سے کہتے، “ہاں، ہاں، کیوں نہیں۔ اسے انگریز فوج کا سب سے بڑا تمغا وکٹوریا کراس ملا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ بکرا بھی بہت بہادر ہے۔ ایک بار اس نے ڈاکوئوں کو مار بھگایا تھا”۔
حالاں کہ وہ بکر اتنا ڈر پوک تھا کہ بلیاں بھی اسے ڈراتی تھیں۔ اسی لیے محلے کے بچے کہا کرتے تھے: “نازک صاحب کا بکرا چوہا ہے چوہا، ” یہ سن کر نازک صاحب بہت خفا ہوتے تھے۔ بکرے کی اس بزدلی نے اس دفعہ بقر عید پر عجب گل کھلایا۔ آپ بھی سنیے:
کرنا اللہ کا یوں ہوا کہ دادی اماں نے ہمارے ابا جان سے کہا کہ بقر عید قریب آرہی ہے۔ قربانی کے لیے اچھا سا بکرا لے آئو۔ ابا جان عید سے دو روز پہلے ایک بکرا لے آئے۔ موٹا تازہ، سیاہ رنگ کا لیکن کان دونوں سفید۔ اس وقت تو ہم نے غور نہیں کیا لیکن بعد میں ہمیں احساس ہوا کہ یہ بکرا نازک صاحب کے بکرے سے بہت ملتا جلتا ہے۔ وہی رنگ وہی کاٹھ۔ خیر صاحب بکرا تو انا جان لے آئے لیکن وہ بکرا کیا تھا اچھا خاصا غنڈہ تھا۔ کم بخت نے آتے ہی پڑوس کے بکرے کو ایسی ٹکر مارے کہ بے چارہ لڑھکنیاں کھاتا ہوا، دور جاگرا، پھر محلے کے دو چار آدمیوں کو سینگ مارے تو بے چارے بلبلا کر رہ گئے۔ بڑی مشکل سے پانچ چھے آدمیوں نے مل کر اسے رسی سے باندھا۔ اس پر اس نے ایک ایسی خوف نازک آواز میں “میں” کی کہ بکرے تو بکرے ایک دفعہ تو محلے بھر کے بیل اور گائے بھی سہم کر رہ گئے۔ جو بچے اس انتظار میں تھے کہ بکرا آئے گا تو اسے ٹہلانے لے جائیں گے وہ سب سانس روکے اپنی اپنی مائوں کے پیچھے دبک گئے۔
“یاالہٰی، یہ بکرا ہے یا پہلوان، کسی کے قابو میں ہی نہیں آتا”۔ امی نے کہا۔
“ارے بیٹا، یہ کیا اٹھا لائے ہو”۔ دادی اماں ہمارے ابا جان سے کہنے لگیں، “مجھے تو لگتا ہے یہ بکرا نہیں کوئی جن بھوت ہے”۔
“مجھے بھی یہی لگ رہا ہے”۔ خالہ بی نے کہا۔
ابا جان بولے، “کمال کرتے ہیں آپ لوگ بھی۔ بکرا ذرا طاقت ور ہے صحت مند ہے۔ بس بے چارہ نئے ماحول اور نئی جگہ سے گھبرا رہا ہے۔ کل تک ٹھیک ہوجائے گا”۔
لیکن کل تک تو اس نے زور لگا لگا کر رسی توڑ دی اور باہر سڑک پر نکل بھاگا۔ راستے میں جو بکرا بھی اسے ملا اس سے الجھتا گیا اور ہر آنے جانے والے کو ٹکریں مارتا گیا۔ پورے محلے میں شور مچ گیا۔ لوگ دوڑ پڑے۔ کئی لوگوں نے اپنے بکرے گھر میں چھپا لیے۔ بڑی مشکل سے اسے قابو میں کرکے ایک کوٹھڑی میں بند کیا۔ اب محلے بھر میں اس کی دھاک بیٹھ چکی۔ لوگ اسے غنڈا بکرا کہنے لگے تھے۔ نازک صاحب نے جب اس بکرے کی شہرت سنی تو انہوں نے اپنے بکرے کو باہر نکالنا بند کردیا اور کہنے لگے “اپنے نامعقول بکرے کو باندھ کر رکھنا۔ اگر وہ دوسرے بکروں کے ساتھ گھلا ملا تو اس کی بری صحت میں پڑ کر سارے بکرے خراب ہوجائیں گے۔ بالکل اسی کی طرح سب بکرے شیطان ہوجائیں گے۔ اسی لیے میں نے اپنے بکرے کو باہر نکالنا بند کردیا ہے۔ ہاں میاں! تمہارا کیا ہے۔ تمہارا بکرا تو دو تین دن میں کٹ جائے گا لیکن میں نے اپنا بکرا بڑی محنت سے پالا ہے۔ اس کی تربیت کی ہے یہ کوئی کٹنے والا بکرا نیہں ہے۔ اس کا دادا جو تھا۔۔۔۔۔۔۔”۔
“بس بس رہنے دیجئے۔ آپ کے لاڈلے بکرے کا شجرہ نسب ہم خوب جانتے ہیں۔ اتنا کرم کیجئے گا کہ اسے دو تین دن باہر مت نکالیے گا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارا بکرا اس کی آنکھ وانکھ پھوڑ دے”۔ یہ کہہ کر ہم اپنے بکرے کی خیریت دریافت کرنے اس کی کوٹھڑی کے اندر پہنچے جس میں موصوف بند تھے۔ معلوم ہوا کہ ٹکریں مار مار کر اس نے کوٹھڑی کے دروازے کی چولیں ڈھیلی کردی ہیں۔ بڑی مشکل سے اسے گھاس اور پانی وغیرہ دیا۔ ہمارا خیال تھا کہ یہ غنڈا بکرا رات کو تھک ہار کر سوجائے گا۔ آخر سارا دن کشتی کرتا رہا ہے۔ لیکن توبہ کیجئے صاحب! وہ تو جانے کس مٹیکا بنا ہوا تھا۔ رات بھر کم بخت چلاتا رہا۔ نہ سویا نہ سونے دیا۔ اس کی آواز سے نہ صرف گھر بھر کی نیدن حرام تھی، بلکہ پاس پڑوس والے بھی تنگ آچکے تھے۔ اتنی زور دار آواز میں “میں میں ایں” کرتا تھا کہ قبر میں پڑے مردے بھی جاگ جائیں۔
آخر اللہ اللہ کرکے صبح ہوئی۔ محلے کے کئی لوگ ہمارے پاس بکرے کی شکایت کرنے آئے۔ ہم نے انہیں سمجھایا کہ ہم بھی بکرے سے اتنے ہی تنگ ہیں اور کل عید کی نماز پڑھ کر فوراً ہی اس کی میں میں کو ہمیشہ کے لیے بند کروادیں گے۔
اور لوگوں کے ساتھ ساتھ نازک صاحب بھی شکایت کرنے پہنچ گئے۔ کہنے لگا، ” آپ کے بکرے کی قوالی نے مجھے رات بھر نہیں سونے دیا۔ مجھے شبہ ہے کہ یہ بکرا پاگل تو نہیں۔ آخر میرا بھی تو بکرا ہے۔ اتنے سالوں سے پالا ہوا ہے۔ مجال ہے جو کبھی زور سے بھی “میں” کی ہو۔ آخر میں نے اس کی تربیت کی ہے۔ بڑا خاندانی بکرا ہے میرا۔ اس بکرے کا پردادا۔۔۔۔۔۔۔”۔
“مغلوں کا شاہی بکرا تھا”۔ ہم ان کی بات کاٹ کر بولے، “یہی کہنا چاہتے تھے نا آپ۔ صاحب، یقین کیجئے کہ ہم تو اپنے اس بکرے سے بہت تنگ آچکے ہیں۔ کل ہی قسائی کو بلوا کر چھری پھروادیں گے۔ کہیے آپ کو اس کی بوٹیاں بھجوائیں یا پائے”۔
وہ دونوں کان پکڑ کر بولے، “نانانا۔ توبہ توبہ! مجھے ہر گز کچھ نہ بھجوانا، اس کا گوشت کھا کر تو میں بھونکنے لگوں گا۔ اس غنڈے بکرے۔۔۔۔۔۔۔۔”۔
اور بہت دیر تک اللہ جانے ہمارے بکرے کو کیا کچھ کہتے رہے اور چلتے چلتے ہدایت کرگئے۔ “دیکھو میاں! بکرا کٹواتے وقت بہت احتیاط کرنا۔ کہیں بھاگ نہ جائے اور ہاں ایک قسائی سے کام نہیں چلے گا۔بکرا جن ہے جن۔ کم از کم تین چار قسائیوں کی ضرورت ہوگی۔
غرض وہ سارا دن محلے والوں کی شکایات اور ہدایت سننے میں گزرا۔ آخر رات آئی۔ رات کا چارہ کھا کر بکرے نے تازہ دم ہو کر جو چلانا شروع کیا صبح تک بغیر رکے چلاتا چلا گیا۔ صبح ہوتے ہی ہم نہا دھو کر عید کی نماز پڑھنے گئے۔ واپسی پر پپو قسائی کو لیتے آئے۔ ہم نے اس سے بہیترا کہا کہ بکرا بڑا منہ زور ہے، دو چار آدمیوں کو بھی ساتھ لے لو لیکن وہ نہ مانا، کہنے لگا، “برسوں سے بکرے کاٹ رہا ہوں۔ چھوٹے موٹے بکرے کو اگر گھور کر دیکھ لوں تو اس کا دم نکل جاتا ہے اور کوئی بکرا ذرا تگڑا ہو تو ہش کرنے پر دم دبا کر لیٹ جاتا ہے اور مزے سے چھری پھیر دیتا ہوں”۔
لیکن پپو قسائی کی ساری شیخی دھری کی دھری رہ گئی۔ بکرے کو کوٹھڑی سے نکالنا تھا کہ اس نے اچھل کر پپو قسائی کو ٹکر مارے اور اس سے پہلے کہ قسائی اٹھ کر اسے “ہش” کرتا، بکرا چھلانگیں مارتا ہوا دروازے سے باہر نکل گیا۔ ہم شور کرتے ہوئے اس کے پیچھے بھاگے۔ ابا جان نے پپو قسائی کو سہارا دے کر کھڑا کیا اور وہ بھی بڑے غصے سے چھری لہراتا ہوا بکرے کے پیچھے بھاگا۔
ادھر بکر آن کی آن میں برابر کی گلی میں گھس گیا اور نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ ہم ٹامک ٹوئیاں مارتے رہے لیکن بکرا نہ ملا۔ پورے محلے میں شور مچ گیا کہ غنڈا بکرا فرار ہوگیا۔ بچے تماشا دیکھنے باہر نکل آئے۔ آخر کسی بچے نے بتایا کہ برابر کے محلے میں ایک بکرا دوسرے بکرے کو ٹکریں مارتا دیکھا گیا ہے۔ ہم نے کہا ہو نہ ہو یہ ہمارا بکرا ہے۔ برابر کے محلے میں پہنچے مگر وہاں بھی بکرا نہ ملا۔ جب مایوس ہو کر واپس آرہے تھے تو پپو قسائی ایک موٹے تازے کالے بکرے کا سفید کان پکڑے آتا دکھائی دیا اور وہ بکرا بڑی شرافت سے سر جھکائے آہستہ آہستہ اس کے ساتھ ساتھ چلا آرہا تھا۔ ہمیں اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا کہ ہمارا بکرا تنی آسانی سے قابو کیا جاسکتا ہے۔ ہم مارے حیرت کے اپنی جگہ پر کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ واقعی پپو قسائی نے تو کمال کردیا۔ وہ ٹھیک کہتا تھا کہ بکرے میری “ہش” سن کر ڈر جاتے ہیں۔ ہم دل ہی دل میں یہ سوچ رہے تھے اور ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے پپو قسائی بکرے کو کان سے پکر کر ہمارے گھر میں داخل ہوگیا تاکہ اسے ذبح کرسکے۔
اتنے میں ہمیں ایک خوفناک “میں ایں” سنائی دی۔ ہم اچھل پڑے اور پیچھے مڑ کر دیکھا تو غنڈا بکرا کھڑا ہمیں غصے سے گھور رہا تھا۔ “میرے اللہ! یہ یہاں کہاں سے آگیا۔ تو پھر پپو قسائی کون سے بکرے کو کاٹنے لے گیا ہے۔” ہم سوچ میں پڑ گئے۔ لیکن غنڈے بکرنے ایک بار پھر زور سے “میں ایں” کی۔ اس کےس اتھ ہی نازک صاحب آتے دکھائی دیے۔ بہت بدحواس نظر آتے تھے۔ ہمیں دیکھ کر لپک کر آگے آئے اور پھولی ہوئی سانس سے بولے، “تم نے میرے بکرے کو کہیں دیکھا ہے۔ اللہ جانے کس طرح کھلا رہ گیا تھا گھر سے باہر نکل گیا اور یہ تمہارا بکرا باہر کیوں کھڑا ہے۔” اب ہماری سمجھ میں آیا کہ پپو قائی نے اتنی آسانی سے بکرے کو کیوں قابو کرلیا تھا۔ دراصل وہ نازک صاحب کا بکرا تھا۔ دونوں کا رنگ او جسامت ایک ہی تھی اس لیے دھوکا ہوگیا، یہ خیال آتے ہی ہم گھر کی طرف دوڑ پڑے تاکہ پپو قسائی کو نازک صاحب کا بکرا کاتنے سے باز رکھ سکیں۔
“ٹھیرو۔ رک جائو۔ بکرا مت کاٹنا۔۔۔۔۔۔ یہ بکرا ہمارا نہیں ہے”۔
یہ کہتے ہوئے ہم گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ پپو قسائی نازک صاحب کے بکرے کو کاٹ چکا تھا اور اس کی کھال اتارنے کی تیاری کررہا تھا۔
ابا جان حیرانی سے ہماری شکل دیکھ رہے تھے اور ہم یہ سوچ رہے تھے کہ نازک صاحب کو ہم یہ سارا معاملہ کیسے سمجھائیں گے۔ وہ تو ہماری جان کو آجائیں گے۔ اتنے میں نازک صاحب ہمارے گھر میں داخل ہوئے اور ابا جان کو مخاطب کرکے بولے۔ ” آپ نے میرا بکرا کہیں دیکھا ہے۔ نہ جانے کس طرح کھلا رہ گیا تھا۔ گھر سے باہر نکل گیا۔ کیا آپ کا بکرا کٹ گیا”۔
اس سے پہلے کہ ابا جان کچھ کہتے ہم بول پڑے۔ “جی ہاں، جی ہاں ہمارا بکرا کٹ گیا، بڑے آرام اور شرافت سے ۔ کم بخت بڑا ڈرپوک نکلا۔ ذرا مزاحمت نہ کی۔ آپ کے بکرے کی طرح بہادر ہوتا اور شاہی بکروں کی اولاد ہوتا تو ہرگز اس طرح نہیں کٹتا۔ آخر آپ کا بکرا ڈاکوئوں کا مقابلہ کرنے والا بکرا ہے بھلا اس کا اور اس کا کیا مقابلہ”۔
وہ خوش ہو کر بولے۔ ” جی، جی، صحیح کہا تم نے برخوردار۔ لیکن میرا بکرا ہے کہاں”۔
میں نے باہر کھڑا دیکھا تھا ابھی۔ بڑی خوفناک آواز میں “میں” کررہا تھا۔ آخر اس کی ماں نے دوسری جنگ عظیم لڑی تھی”۔ ہم نے کہا۔
اب ان کی سمجھ میں سارا معاملہ آگیا۔ کبھی وہ اپنے بکرے کو دیکھتے جس کی کھال پپو قسائی اتار رہا تھا اور کبھی اس غنڈے بکرے کو جو باہر کھڑا چلا رہا تھا۔ ہم نے جھانک کر باہر دیکھا۔ محلے بھر کے بچے ایک بڑا سا دائرہ بنائے غنڈے بکرے کو دیکھ رہے تھے اور وہ بڑے غصےس ے ان کے درمیان کھڑا شور مچارہا تھا۔ “یہ رہا آپ کا بکرا”۔ ہم نے نازک صآحب کو انگلی کے اشارے سے غنڈا بکرا دکھا کر کہا۔
لیکن نازک صاحب نے تو ایک ہنگامہ کھڑا کردیا۔ “میرا بکرا میرا بکر”۔ کہہ کر انہوں نے سارے محلے والوں کو اکھٹا کرلیا۔ ہم نے انہیں پیش کش کی کہ اپنے بکرے کے عوض آپ ہمارا بکرا لے لیں لیکن وہ راضی نہ ہوتے تھے، کہتے تھے اتنا خوب صورت ذہین اور بہادر بکرا اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا اور یہ بکرا تو غنڈا ہے۔ میں اسے کیسے لے سکتا ہوں۔ آخر لوگوں نے انہیں سمجھایا کہ ایک سا رنگ اور قد ہونے کی وجہ سے پپو قسائی سے غلطی ہوئی۔ آپ دوسرا بکرا لے لیں۔ ابا جان نے بھی ان سے معافی مانگی۔
آخروہ راضی ہوگئے لیکن انہوں نے اسی وقت کھڑے کھڑے پپو قسائی کو وہ بدمعاش بکرا فروخت کردیا اور پپو قسائی تین چار آدمیوں کی مدد سے اسے لے گیا۔
آج بھی نازک صاحب اس بکرے کو یاد کرکے اداس ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اتنا ذہین، خوب صورت، بہادر اور طاقت ور بکرا آج تک دنیا میں پیدا نہیں ہوا۔ حالاں کہ وہ بکرا ذرا سا بھی بہادر ہوتا اور پپو قسائی سے تھوڑی بھی زور آزمائی کرلیتا تو بچ جاتا۔ لیکن نازک صاحب اس بات کو نہیں مانتے۔ کہتے ہیں کہ
“اس کا دادا۔۔۔۔۔۔۔۔”۔

 

x

Check Also

امریکا، ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

ڈرون سے گردے کی اسپتال میں ڈیلیوری

امریکی شہربالٹی مورمیں ڈرون کی مدد سے ڈونر کا گردہ مریض تک پہنچا دیا گیا، ...

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

کتاب میں کسی کھلاڑی کی کردار کشی نہیں کی، آفریدی

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ...

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ماریا شراپوا اٹالین ٹینس سے دستبردار

ٹینس پلیئر ماریا شراپووا کے فینز کیلئے بری خبر ، وہ اب تک کاندھے کی ...

%d bloggers like this: